تاریخ کے بادشاہ گر دو بھائیوں کی کہانی


جہاں کوئی انسان اپنی ذاتی محنت اور صلاحیت کے بل پر اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے‘ وہاں اس کے دشمن پیدا ہو جانا بالکل عام سی بات ہے۔ یہی ان دو بھائیوں کے ساتھ ہوا جو تاریخ میں بادشاہ گر کہلائے گئے۔ وہ اٹھارہویں صدی کی مغل فوج کا حصہ تھے۔ سیّد تھے، حسب نسب ایران سے ملتا تھا۔ فوج میں اچھے عہدوں پہ تھے۔

ایک بھائی حسن علی خاں (لقب عبداللہ خاں ظفر جنگ) تھے، دوسرے حسین علی خاں کہلاتے تھے۔ جب اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغلیہ سلطنت کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو فوجی طاقت، معاملہ فہمی اور سٹرونگ پی آر کی وجہ سے طاقت کے تمام راستے ان دو بھائیوں کی ڈیوڑھی سے گزر کے جانے لگے۔ چھ مغل بادشاہوں کو بادشاہ بنانے میں ان کا رول بڑا اہم تصور کیا جاتا ہے۔

بہادر شاہ، جہاندار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، رفیع الدولہ اور محمد شاہ وہ چھ بادشاہ تھے جو کل پندرہ برس میں تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد تخت پر بیٹھے اور کبھی اندھے ہو کر تخت چھوڑا، کبھی مقتول ٹھہرے اور جو بہت عزت پائی تو صرف معزول ہوئے۔ محمد شاہ جو بعد میں رنگیلے کے نام سے مشہور ہوئے‘ نے بادشاہ گر سیّد برادران کو مروا ڈالا لیکن وہ جو طوائف الملوکی ”بادشاہ گروں‘‘ کی وجہ سے آہستہ سپیڈ پہ تھی، وہ پھر کسی مغل بادشاہ سے نہیں رکی اور اس کے بعد ہمیں دیکھنے کو ملا کہ نادر شاہ ہندوستان آیا اور شامتِ اعمال نے دلّی پہ گرفت کی، مرہٹوں نے سلطنت کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا، جاٹوں نے تو حد ہی مکا دی، قلعے کی چھتوں سے چاندی تک اتار لے گئے، پھر سلطنت نے سکھوں کا وقت دیکھا اور اسی بیچ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔

ہوا یوں کہ ان دونوں بھائیوں کے بزرگ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ بار بار ہندوستان آئے۔ جن دنوں وہ اپنے مشہور زمانہ سترہ حملے کرتے تھے اور سومنات کا بت تھا کہ ٹوٹ کر نہیں دیتا تھا، بس انہی دنوں کی بات ہے۔ جب غزنوی کے ساتھ آنے والے بزرگ نے وفات پائی تو ان کے چاروں بیٹے سلطنتِ ہند کی مضبوطی کے لیے درباروں اور فوج میں جگہ پا چکے تھے۔

پھر اس کے بعد غوری، ایبک، التمش، بلبن، خلجی، تغلق، لودھی یا مغل‘ کوئی بھی حکمران آیا، سادات بارہہ کا یہ خاندان ہمیشہ سفارت، فوجی یا درباری امور میں آگے آگے رہا۔ اکبر جب بادشاہ بنا تو اس وقت سید محمود بارہہ مغلیہ فوج میں اہم ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے۔ آئینِ اکبری میں بھی ان کی اہمیت کا اچھا خاصا اعتراف موجود ہے۔

ایک چیز جو اکبر کے زمانے میں لکھی گئی تاریخ کی اس کتاب میں اہم ہے وہ یہ کہ ”ان کی اہم کارگزاریوں نے امروہہ اور مانک پور کے سادات، میوات کے خان زادوں اور صفوی خاندان سے تعلق رکھنے والے شرفا کی شہرت کو پس پشت ڈال دیا تھا‘‘۔ مطلب ان کے خلاف جیلسی کا لیول وہ تھا جس کا حد و حساب کوئی نہیں۔ ظاہری بات ہے، ایک باہر سے آنے والا خاندان، دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے حکومتی امور پہ چھا چکا ہے، شریکے سیخ پا نہیں ہوں گے تو کیا دھمال ڈالیں گے؟

اس خاندان کے بارے میں لکھا گیا کہ جب کبھی جنگ لڑنا پڑتی تو وہ اس بے جگری سے لڑتے کہ نتائج ان کے حق میں ہی آتے۔ اگر حالات کی ہوا ان کے خلاف ہوتی تو بھی وہ کسی چیز کی پروا نہ کرتے، تباہی کو نظرانداز کر کے آخری دم اور آخری قطرہ خوں تک لڑتے رہتے۔ مغلیہ دور میں کوئی ایک جنگ ایسی نہیں تھی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو اور انہیں اس کی بھاری قیمت ادا نہ کرنا پڑی ہو۔ یہ لوگ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ بردبار تھے اور برداشت میں بھی ان کا ثانی کوئی نہ تھا۔

ان کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اکبری دور میں تینتیس، جہانگیر کے وقت میں بیس، شاہجہاں کی حکومت میں اکتالیس، عالمگیر کی تخت نشینی کے بعد ستائیس اور بہادر شاہ سمیت بعد کی حکومتوں میں ہمیشہ انیس‘ بیس عہدے دار اسی خاندان کے ہوتے تھے۔ تو کل ملا کے 700 برس سیّدان بادشاہ گر کے خاندان نے حکومت میں رہتے ہوئے اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔ حالانکہ ان کا مسلک عالمگیر کے عقائد سے مختلف تھا لیکن عالمگیر نے اپنے بیٹے اعظم کے نام جب وصیت لکھی تو اس نے بھی ان سے ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنے کا کہا۔

فرخ سیر کے وقت تک یہ دونوں بھائی اپنی ذہانت اور مضبوط گرفت کی وجہ سے کنگ میکر سمجھے جاتے تھے۔ مشہور تھا کہ جو بادشاہ بنے گا اسے ان کی اشیرباد لازمی ہونی چاہیے حالانکہ فرخ سیر خود ان کی وجہ سے بادشاہ بنا تھا لیکن دربار میں پائے جانے والے سازشی عناصر جو ہر دور میں ہوتے ہی ہیں، نے فرخ سیر کو ان کے خلاف کر دیا۔ اب اس وقت اگر بڑے لوگ کسی سے ناراض ہوتے تھے تو وہ قانونی گورکھ دھندوں میں نہیں پڑتے تھے، ان کے پاس سادہ سا حل ہوتا تھا کہ بندہ مروایا کیسے جائے۔

بادشاہ سلامت نے بڑی کوششیں کیں لیکن بادشاہ گروں کو مروا نہ سکے، خود پھنس گئے۔ قصہ مختصر ان کے بعد دو بادشاہ اور آئے، وہ خود ہی اتنے کمزور تھے کہ بادشاہ گروں پہ ہاتھ ڈالنے کی نوبت نہ آ سکی لیکن اس بیچ وہ جو درباری سازشیں ہوتی ہیں وہ اپنے عروج پہ تھیں۔ محمد شاہ کا ٹائم آیا تو مغلیہ سرداروں میں سے ایک نے بادشاہ گران قتل کروانے کی مہم شروع کی۔

قاتل میر حیدر کاشغری کو ایڈوانس پیسے ادا کیے گئے، وہ حسین علی خاں کے پاس فریادی کے روپ میں پہنچا اور ان کے پہلو میں زوردار خنجر مارا، بادشاہ گر کے آخری الفاظ یہ تھے ”کم بخت تو نے غلط پانسہ پھینکا ہے اور اردگرد کے سب لوگوں کو مصیبت میں پھنسا دیا ہے‘‘۔ دوسرے بھائی حسن علی خاں کو محمد شاہ کی فوج نے گرفتار کیا اور چار برس تک وہ قید میں رہنے کے بعد وفات پا گئے۔ دیکھا جائے تو اصل بادشاہ گری پہلے جانے والے بھائی حسین علی خاں کے ساتھ ختم ہو گئی تھی کیونکہ اس سارے دھندے میں ایکٹو برین انہیں کا تھا۔

بادشاہ گر بھائیوں کی اس کہانی میں ہر موڑ پہ ہمیں بہت دلچسپ مشاہدے کرنے کو ملتے ہیں۔ تاریخ دانوں کو باقاعدہ اس کام پہ ڈپیوٹ کیا گیا کہ جتنا ہو سکے‘ منہ پھاڑ کے ان کی برائیاں لکھو۔ جتنے سپہ سالار تھے، معززین تھے، عمال تھے، چھوٹے موٹے شاہ زادے تھے، سب ان سے خار کھاتے تھے چونکہ دوسرے سب لوگ ان کے جیسی عقل مندی اور ان کی سی قبولیت عامہ نہیں رکھتے تھے‘ اس لیے سب کا زور ہمیشہ سازشوں پہ رہتا تھا۔ کئی بار انہیں قتل کرانے کی کوشش کی گئی، بادشاہوں کے کان بھرے گئے کہ وہ ان کے خلاف ہو جائیں لیکن جنہیں اللہ رکھے انہیں کون چکھے۔

موت بہرحال ایک دن آنی ہے تو وہ اپنی آئی پہ مارے گئے۔ اس سے پہلے کوئی ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ تاریخ کی جتنی کتابیں اٹھا کر دیکھیں گے‘ اکثر جگہ ان دونوں بھائیوں کا ذکر منفی انداز میں ملے گا بلکہ بادشاہ گر کا خطاب دینے والے بھی وہی لوگ تھے لیکن تاریخ فرح بخش (محمد فیض بخش کاکوروی)، سیدان بادشاہ گر (ڈاکٹر سید صفدر حسین، پروفیسر حامد حسن سید) اور تاریخ ہند (رستم علی) میں ان دونوں کو دیکھنے کا زاویہ مختلف ہے۔

اصل قصہ یہ ہے کہ وقت بڑی ظالم چیز ہے۔ کتابوں میں تو واجد علی شاہ کو شدید بدنام کیا گیا، ان تمام باتوں سے بھی پردہ اب اٹھتا جا رہا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کی ہندو دشمنی اور بنیاد پرستی کے رد میں ابھی کل (بالکل کل) ایک مقالہ بین الاقوامی خبر رساں ویب سائٹ پر آیا ہے۔

ماضی قریب میں جھانکیں تو زرداری صاحب بھی جس وقت برداشتوں پہ بھاری ہو گئے تو کنگ میکر کہلائے، تازہ ترین خبروں میں یہ وقوعہ شریف برادران کے ساتھ ہوتا ہے۔ آج ہم کل تمہاری باری ہے۔ وقت کا فیصلہ سب پہ بھاری ہوتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا سچ سامنے آ جاتا ہے، بس تھوڑا وقت لگتا ہے۔ مل کے انتظار کرنے میں کیا ہرج ہے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain