چین اور سعودی عرب نے ہمارا ساتھ کیوں چھوڑا؟


فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا بھر میں دہشت گردی کی مالی معاونت (Terror Financing) اور منی لانڈرنگ کی معاملات کو کنٹرول کرنے کی غرض سے وجود رکھتا ہے اور دنیا کے متعدد عالمی اداروں کی مانند امریکہ کا اس میں کلیدی کردار ہے اور دیگر اہم یورپی ممالک عموماً امریکی نقش قدم پر ہی قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو پیرس کے حالیہ اجلاس میں اس ادارے نے گرے لسٹ میں شامل کر دیا ہے کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مالی ادائیگیوں، بینکوں میں موجود سرمائے کی نقل و حرکت پر جون سے نگرانی کی جائے گی۔

اس سے پاکستانی معیشت برائے راست کسی پابندی کی زد میں تو نہیں آئے گی لیکن کاروباری افراد کسی مستقبل کی ممکنہ پابندی یعنی بلیک لسٹ میں پاکستان کی شمولت کے خوف میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس سے سرمایہ کاری کے متاثر ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل ہونے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں ناکامی کا منہ کن وجوہات کی بناء پر دیکھنا پڑا۔ اور اس قرار داد کا حقیقی محرک امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف میں ناکامی کو سمجھنے کے لئے اس تنظیم کی ساخت کو سمجھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ 35 ممالک اور 2 تنظیموں خلیج تعاون کونسل اور یورپین کمیشن پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کو مکمل رکنیت حاصل نہیں بلکہ وہ خلیج تعاون کونسل کے رکن کے طور پر وہاں موجود تھا۔ اگر ان 37 اراکین میں سے 3 اراکین بھی پاکستان کے خلاف آنے والی قرار داد کی مخالفت کر دیتے تو یہ قرار داد منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ مگر نائن الیون کے بعد سے بدلتی اور غیر واضح حکمت عملی کے سبب سے پاکستان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں اب رہا کہ وہ 37 اراکین میں سے صرف 3 کی بھی حمایت حاصل کر سکتا۔ اس سے سفارتی محاذ پر پاکستان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

یہ واضح ہے کہ اقوام متحدہ اور اہم ممالک میں پاکستان کوئی نتائج حاصل نہیں کر سکا جو کر سکنے چاہیں تھے۔ اس طرف سے سفارتی حکمت عملی اور عملے کی تبدیلی وقت کی آواز ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس قرار داد کے محرک کے طور پر سامنے آنے کے بعد یہ امر تو طے شدہ تھا کہ امریکہ نے اس کو کامیاب کرانے کی غرض سے کوئی حکمت عملی ضرور تیار کی ہو گی۔ امریکہ جانتا تھا کہ چین، سعودی عرب اور ترکی اس حوالے سے پاکستان کی حمایت میں سامنے آئیں گے۔ لہٰذا چین اور سعودی عرب کو پاکستانی مؤقف سے دور کرنے کی غرض سے امریکہ نے یہ حکمت عملی تیار کی کہ اس نے ایف اے ٹی ایف کی نائب صدارت کے لئے جاپان کے حق میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا۔

چین بھی اس عہدے کے لئے کوشاں تھا۔ جب پہلی بار چین نے پاکستان کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا تو چین سے اس حوالے سے بات کی گئی کہ اگر چین پاکستان کے حوالے سے مثبت موقف سے اس ادارے میں دستبردار ہو جائے تو ایسی صورت میں جاپان کی بجائے چین کی نائب صدارت کے لئے راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دوست ممالک کی بھی اپنی ضروریات اور ترجیحات ہوتی ہیں وہ ہر وقت ہر موقع پر حمایت نہیں کر سکتے۔

جبکہ سعودی عرب کا یہ معاملہ ہوا کہ سعودی عرب بطور ملک ایف اے ٹی ایف کی رکنیت نہیں رکھتا جو اس کی خواہش ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے رکن کی حیثیت سے وہ وہاں موجود تھا۔ درحقیقت اس کا پاکستان کی حمایت سے دور ووٹ اس حقیقت کا غماض ہے کہ یہ ووٹ سعودی عرب نے صرف نہیں بلکہ تمام خلیج کی ریاستوں نے استعمال کیا۔ کیونکہ پہلی رائے شماری کے بعد واشنگٹن نے سعودی عرب سے رابطہ کر کے یہ وعدہ کیا کہ وہ اگر پاکستان کی حمایت سے دست کش ہو جائے تو سعودی عرب کو مستقل مکمل رکنیت بطور ملک دی جا سکتی ہے۔ اس سے سعودی عرب کو مستقل رکنیت ملنے کی امید ہوئی جبکہ خلیج تعاون کونسل سعودی عرب سے جداگانہ طور پر اگر وہاں موجود ہو گی تو متحدہ عرب امارات درحقیقت ایف اے ٹی ایف میں موجود ہو گا۔ جو اس کی خواہش ہے۔

ایک تصور یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ بیجنگ نے سعودی عرب کے فیصلے کے بعد پاکستان کو باور کروا دیا تھا کہ اب اس کے لئے مسترد رائے کا اظہار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ وہ پاکستان سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی بات کیوں نہیں سن رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نائن الیون کے بعد سے اب تک یہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر چھڑی والے قابض ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ امریکہ میں تصور بہت مضبوط ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ناقابل اعتماد ہیں کیونکہ یہ صرف نوکری کر سکتے ہیں۔ یہ نوکری مستقل برقرار نہیں رہتی اور نت نئی پالیسیاں روز سامنے لاتے ہیں۔ پھر چاہے یہ افسران جمہوری حکمرانوں کے کتنے ہی قریب ہوں ان پر یقین نہیں نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حکمرانوں کو مکمل صورت حال سے آگاہ کر رہے ہوں گے اور ہدایات صرف ان سے ہی لے رہے ہوں گے۔ اس لئے بسا اوقات جمہوری حکمران کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں اور منصہ شہود پر کچھ اور نمودار ہو رہا ہوتا ہے۔

امریکہ مقاصد تو یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ سی پیک سے جڑے معاشی مفادات کا امکانی حد تک رخ اپنی جانب موڑنا چاہتا ہے مگر اس امر سے بھی شاکی ہے کہ کہیں چین اپنا فوجی اثر ورسوخ بڑھانے میں پاکستان میں اور پاکستان کے توسط سے وسطی ایشیاء اور عرب ممالک میں قدم نہ جما لے۔ کیونکہ ان ممالک میں پاکستان کی اہمیت دو چند ہے۔ اور امریکہ پاکستان اس اہمیت کو صرف اپنے تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ انہیں مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ پاکستان میں اپنے متعین افراد کی تعداد کو بھی مختلف حربوں سے بڑھا رہا ہے۔ اور 2016؁ء سے پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ اس کے کنٹریکٹرز کو سروس پاسپورٹ پر فضائی اڈے پر ہی ویزہ جاری کر دیا جائے۔ سروس پاسپورٹ کا درجہ سرکاری پاسپورٹ جیسا نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی یہ عام استعمال کا پاسپورٹ ہوتا ہے۔

وزارت خارجہ سے منسلک ماضی کی ایک شخصیت اس کے نقصانات جاننے کے باوجود اس کی بہت حامی تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کسی صورت اس پر راضی نہ ہوئے۔ یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ لیکن اس وقت بھی امریکی سفارتخانے کی تعمیر کے نام پر 500 کنٹریکٹرز پاکستان میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سفارتخانے کی تعمیر کا کام تمام ہو چکا ہے۔ بلکہ وہ مزید ویزے بھی مانگ رہے ہیں۔ جس کی ابھی تک پاکستان مزاحمت کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مزید اقدامات کر رہا ہے۔

ابھی ایف اے ٹی ایف کے بعد انسانی سمگلنگ کے حوالے سے پاکستان پر سختی کرنے کی حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے جو کہ اگلے تین ماہ میں مکمل طور پر واضح ہو جائے گی۔ امریکہ نے پاکستان کو انسانی سمگلنگ کے حوالے سے ایک خط تحریر کیا تھا۔ اس خط میں 100 شقیں شامل تھیں کہ پاکستان ان پر عمل پیرا ہو۔ اس خط کا جواب دینے کی آخری تاریخ 28فروری تھی مگر پاکستان نے تا حال اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔ جواب نہ دینے کی وجہ سے امریکہ اپنا دباؤ مزید بڑھا رہا ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی طرف قدم بڑھا لے۔ آئندہ تین ماہ کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ اور انسانی سمگلنگ کے حوالے سے امریکی اقدامات پاکستان کے لئے بڑے چیلنج ہوں گی۔ جس سے نبٹنے کے لئے ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).