پاور گیم کا سیاسی دھندا گندا ہے پر چنگا ہے


سینیٹ الیکشن میں پیسے کو چلتا پھرتا دیکھ کر دل ہی پاٹ گئے ہیں۔ جس کا جتنا بس ہے اسے سے زیادہ نحوست پھیلاتا چلا جا رہا۔ ان غم کے ماروں کو شاید امید تھی کہ ہماری سیاست پاکستان میں نہیں یورپ میں ہو رہی ہے۔ بڑی صاف شفاف ہو گی۔ بات بات پر استعفے آئیں گے۔
ہماری سیاست ویسی ہی ہے جیسے سے خود ہم ہیں۔

سب سے پہلے بلوچستان کی بات کر لیتے ہیں۔ وہاں کے باغی حکومتی گروپ نے چھ سیٹیں جیتیں ہیں اور اپوزیشن اتحاد نے پانچ۔ تکلیف بیان فرمائی جائے کیا ہے کیوں ہے؟ باغیوں کا ایک دانا بہت جلدی وفاقی حکومت سے آن ملے گا تو یہ اکثریتی گروپ بن جائے گا۔ اب آپ کا تازہ رونا کیا ہو گا؟

نوازشریف نے بلوچستان کی سیاست حالات کا بڑا درست اندازہ لگایا تھا۔ ایک اچھی سیاسی موو کی تھی ڈاکٹر مالک کو وزیراعلی بنایا تھا۔ علیحدگی پسند سب سے زیادہ مکران ڈویژن میں سرگرم تھے۔ ڈاکٹر مالک کی وزارت اعلی نظریاتی حکومتی ریاستی بہترین جواب تھی ڈاکٹر اللہ نذر کی مچائی نظریاتی عسکری تحریک کا۔

مسلم لیگ نون کے ثنا اللہ زہری کو بعد میں ڈھائی سال کے لیے وزیراعلی بننا تھا۔ یہ ارینج منٹ ایک تو ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ لینے کے لیے تھا۔ دوسرا سردار زادوں کی نسبتا کمزور عسکری تحریک کا ایک اچھا سیاسی جواب تھا۔ بلوچستان اب پاکستان کا معاشی مستقبل ہے۔ سیاسی لحاظ سے تقریبا صفر اہمیت رکھنے والا بلوچستان۔ صفر اس لیے کہ سارے بلوچستان کے منتخب نمائندے اپوزیشن میں بیٹھ جائیں تو ڈیڑھ درجن بھی نہیں ہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب معاشی لحاظ سے جیو پولیٹکل حساب سے یہی بلوچستان اتنا اہم ہوتا جائے گا کہ وہاں کی سیاست پاکستان کی قومی سیاست کا رخ متعین کرے گی۔

اک مسئلہ نوازشریف کا ہے۔ وہ قبائلی مزاج بلوچ پختون سیاستدانوں سے معاملات طے کرتے ہوئے ایزی فیل نہیں کرتے۔ وہ اب تک یہ نہیں بھولے کہ جب وہ سرکاری وسائل کا استعمال دیکھ بھال کر کرنے کا کہہ رہے تھے تو بلوچستان کے ایک وزیر نے ان کے سامنے فخر سے بتایا تھا کہ وہ کتنے درجن سرکاری گاڑیاں استعمال کرتا ہے۔ نوازشریف سن کر نہال ہو گئے تھے اکتائے سے لگنے لگے تھے۔

ان کی یہ اکتاہٹ مزاج کا فرق ہے پنجاب میں بھی سرکاری وسائل کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ فرق اس سٹائل کا ہےجو دیہی شہری اور قبائلی انداز میں ہے۔ ”ڈگری ڈگری ہوتی ہے“ والا وزیراعلی آصف زرداری کے ساتھ بہت آرام سے چل سکتا ہے۔ آصف زرداری قبائلی مزاج کو زیادہ بہتر سمجھتے اور اچھا ڈیل کرتے ہیں۔

نواب ثنا اللہ زہری نے جس نوابی سٹائل میں اپنی حکومت چلائی۔ اپنے ہی ساتھیوں پارٹی والوں کو جیسے ٹریٹ کیا۔ جس طرح نیشنل پارٹی کے ان ممبران اور وزرا کے محکموں اور حلقوں میں مداخلت کی جو جھالاوان میں آتے تھے۔ نواب زہری چیف آف جھالاوان ہیں۔ تو یہ بغاوت دیوار پر لکھی دکھائی دے رہی تھی۔

نوازشریف سی پیک کو اپنا کریڈٹ مانتے ہیں۔ گوادر پورٹ کے دو دو افتتاح ہوتے ہیں۔ فوٹو میڈیا پر وہ چلتی ہے جس میں راحیل شریف بغل میں چھڑی دبائے فاتحہ پڑھ رہے ہیں ( افتتاح دو ہوں تو فاتحہ ہی بنتی ہے پھر، خیر)۔

کریڈٹ کا یہ اختلاف ہے اور رہنا ہے۔ سی پیک پر پیسہ لگانے والے چین کے اخبارات میں بھی شہباز سپیڈ کی خبریں چلتی ہیں۔ آصف زرداری نے اپنے دور میں چین کے کتنے دورے کیے تھے؟ کسی کو گنتی یاد ہے۔ وہ کیوں چین سے بیٹھ کر سی پیک کا کریڈٹ تو دے سکتے ہیں لیکن فائدے کیوں چھوڑیں۔

وہ خود بلوچ ہیں سیاست کے اہم ترین کھلاڑی ہیں۔ پنجاب میں ان کا کوئی چانس نہیں ہے مستقبل قریب میں۔ وہ بلوچستان کا روٹ کیوں نہیں لیں گے۔ اپنا چانس وہاں سے کیوں نہیں بنائیں گے۔ بلوچستان میں آ کر اپنی سیاسی گیم لگانا ان کا حق تھا۔ اپنے لیے حلیف وہ ایک سال سے ڈھونڈ رہے تھے۔ چھڑی والوں کو بھی بلوچستان میں اب زرداری وارا کھاتے ہوں گے، اتحاد ہو گیا۔ سیاسی دماغ ہی سیاسی لوگوں کو ڈیل کر سکتا وہ بھی افسروں کے مزاج مطابق۔

زرداری پکی سیٹ والے بلوچ سیاستدانوں کو اچھا مینیج کر لیں گے، نوازشریف سے کہیں بہتر۔ ان سے کام بھی لیں گے انہیں خوش بھی زیادہ رکھیں گے۔  لیکن سیاست کا  یہ کھیل ختم نہیں ہوا ابھی شروع ہوا ہے۔ نوازشریف اپنے اتحادیوں سمیت موجود ہیں اور لازمی حساب برابر کریں گے۔ کوشش شاید فوری نہ کریں البتہ اپنے وقت پر چھوڑیں گے نہیں جو پھنس گیا اسے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی ایک سینیٹ کی سیٹ جیت گئی ہے۔ اپوزیشن کی ایک سیٹ پنجاب میں بنتی تھی۔ یہ سیٹ ہارنا نالائقی تھی۔ جیتنا بہرحال اک اہم خبر ہے۔ پی ٹی آئی کو اس کا پورا کریڈٹ ملنا چاہیے۔ پہلی بار کپتان کے امیدوار نے ویسے معرکہ لڑا جیسے سیاست میں لڑنا چاہیے۔ خاموشی سے کام کیا، جیت کر نعرے مارے اور دعوے کیے شریکوں کا خون جلایا۔

کے پی میں کپتان کی پارٹی ممبران درجنوں کے حساب سے دوڑ لگا گئے۔ کیوں نہ دوڑتے جب انہیں یقین تھا کہ انہیں اب ٹکٹ نہیں ملنا۔ اگر ٹکٹ کی امید تھی تو یہ پتہ تھا کہ وہ جیت نہیں سکیں گے۔ تیسری قسم ان غربا کی تھی جنہیں پتہ تھا کہ الیکشن جیتنا ہے تو خرچہ ہو گا۔ اتنی کمزوریوں کو اگر آصف زرداری جانتے ہوں تو استعمال کیوں نہ کرتے۔

ان کے امیدواروں پر نظر ماریں۔ روبینہ خالد سابق پی پی کے سابق صوبائی صدر اور سینئیر وزیر ظاہر شاہ کی بہن ہیں۔ زرداری صاحب کو پتہ تھا کہ ظاہر شاہ کو پی ٹی آئی والے گھیرنے کے لیے کتنے جتن کر رہے۔ روبینہ خالد پی ٹی آئی کے ووٹوں پر جیتی ہیں۔ ظاہر شاہ کو خوش کرنے کے لیے ان کو پارٹی میں لانے کے لیے یہ مدد پرویز خٹک نے کی ہے۔ وہ بھلے انکار کریں لیکن ایسا ہی ہوا۔ فیصل سخی بٹ اسلام آباد سے آ کر پشاور سے امیدوار تھے۔ یہ اے این پی کی بلور فیملی کے داماد ہیں۔ مسترد ووٹ عدالت نے درست تسلیم کر لیے تو سینیٹر بن جائیں گے۔ بہرہ مند تنگی جیالے ہیں یہ بھی سینیٹر بن گئے ہیں۔ یہ خود کوئی ووٹ تب ہی خرید سکتے ہیں اگر اک پیالی قہوے پر بکتا ہو تو۔

پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل جاوید کپتان کے جلسے گرماتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے واحد منتخب سینیٹر ہیں جو اپنے پورے ووٹ لے گئے ہیں۔ کپتان نے جن پیسے والے امیدواروں کو ووٹ دیا تھا ان میں سے دو تو ہارتے ہارتے بچے ہیں۔ ایک ہار کر غش کھائے پڑا ہے۔

صالحین کے امیدوار مشتاق احمد خان کسی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں کہ سراج الحق سے دم کرا دیں؟ وہ بھی جیت گئے ہیں۔
میڈیا پر بیٹھی روندو روحوں کی باتوں پر اتنا مت جائیں۔ انہیں اس رونے چیخنے کے پیسے ملتے ہیں۔ ان کا رونا بکتا ہے۔ یہ روتے روتے ہنس پڑیں تو ان کے پروگرام کی ریٹنگ گر جاتی ہے۔ ان کے پروگرام آواز بند کر کے سنا کریں۔

فاٹا کے امیدوار آپس میں حساب کتاب کر کے منتخب ہو جاتے ہیں۔ ہارنے والے جیتنے والے سب وہ ہوتے ہیں جن کے کاروبار کا تقاضہ ہے کہ سرکار دربار میں موجود ہوں۔ ان بیچاروں کے اکثر کاروبار بھی ایسے ہیں جن کو قانونی تحفظ ہی حاصل نہیں۔ پاور گیم کے دھندے سے یہ کیوں باہر رہیں۔ جبکہ اس دھندے میں ان رقمیں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ کئی چولہے انہی کی جیب سے چلتے ہیں۔

پاور گیم کا دھندہ سیاست گندہ ہے پر چنگا ہے۔ اس لیے کہ ملک میں موجود سارے پاور گروپس کو طاقت کے ایوانوں میں نمائندگی دے دیتا ہے۔ وہ بندوق نہیں اٹھاتے سر نہیں پھاڑتے طعنے شانے دے کر کچھ لے دے کر کام چلاتے رہتے ہیں۔ کبھی بدل ہی جائیں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi