عمر چیمہ، گٹر جرنلزم، لچر سوشل میڈیا، اور مذہبی کارڈ کا استعمال


کراچی میں فٹ پاتھ اسکول کے حوالے سے سپریم کورٹ کا جب فیصلہ آیا تو محکمہ تعلیم سندھ کے کچھ لوگوں نے انفاس علی شاہ کو آکر تنگ کرنا شروع کردیا۔ جب اس سے بھی بات نہ بنی تو کچھ صحافی حضرات آئے اور اسکول کا جائزہ لینے اور خواتین اساتذہ سے مختلف سوالات کرنے کے بعد ایک خبر جاری کی کہ اس اسکول میں ایک ہندو خاتون ٹیچر بچوں کو اسلا میات کی تعلیم دے رہی ہے جس سے ایمان کو شدید خطرہ ہے۔

یہ حرکت ایک ایسے صحافی کی جانب سے کی گئی جس کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ نہ تو کراچی پریس کلب کا ممبر ہے نہ ہی کسی مستند اخبار یا چینل کا صحافی۔ وہ ایک ڈمی اخبار کا ایک ایسا نام نہاد جعلی صحافی ہے جو اراکین سندھ اسمبلی کے چیمبرز میں اکثر پایا جاتا ہے اور جب سے فٹ پاتھ اسکول کا معاملہ زور پکڑا ہے وہ اس میں مبینہ طور پر اس لئے دلچسپی لینے لگا کہ اسے انفاس سے کچھ رقم مل سکے اور اس خاتون کے خلاف لکھنے پر سندھ سرکار بھی اسے داد و تحسین دیتی رہے۔ انفاس نے مجھ سے کہا کہ انھیں اس عمل سے شدید تکلیف پہنچی اور کئی ایجوکیشن رپورٹر سمیت دیگر صحافیوں نے انھیں بلا خوف و خطر اپنا کام جاری رکھنے کا بھی کہا لیکن انھیں اس بات سے شدید دکھ پہنچا کہ ایک شخص نے جو نہ تو صحافی ہے نہ ہی کسی صحافی تنظیم کا رکن وہ کیسے چند پیسوں کی خاطر ان کے خلاف ’مذہب کارڈ‘ کا استعمال کرتے ہوئے ان کی اور اس اسکول کے بچوں کی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں ایک ایسے معزز خاندان سے ہوں جہاں خواتین گھر سے باہر نکل کر کام نہیں کرتی لیکن اس کام کے لئے انھیں سب سے پہلے مخالفت کا سامنا گھر سے ہوا، آج جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں تو ان کے اہلخانہ کے ساتھ ساتھ ہزاروں وہ لوگ جو ان کے مقصد اور کام کو سمجھتے ہیں انھیں سراہتے ہیں۔ لیکن کردار کشی، کرپشن اور دیگر الزامات کو روز سہنے والی بہادر انفاس اگر خوفزدہ ہیں تو اس بات سے کہ ان کے اس عمل کے خلاف ایک فتنہ ابھارا جا رہا ہے جس پر کوئی بھی سر پھرا بناء انھیں سنے اور سمجھے بغیر ان کو یا ان کے اسکول کے بچوں کو خطرے سے دوچار کرسکتا ہے اور یہ کسی اور نے نہیں خود کو صحافی کہنے والے نے کیا اور خبر چھاپنے کے بعد اپنے جیسے ہم خیال ٹولے کو بھی اس میں شامل کر کے ایک پراپیگنڈہ شروع کیا۔

یہ بات تو ہوگئی اس صحافی کی جو در حقیقت صحافت کی الف ب سے بھی ناواقف دکھائی دے رہا ہے، اب بات کرتے ہیں ان صحافیوں کی جو مستند اداروں کے رجسٹرڈ صحافی ہیں۔ لوگ ان کی خبر کو پڑھتے ہیں، سرکار اور عدلیہ ان کی خبروں کو پڑھنے اور سننے کے بعد جان پاتی ہے کہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ کئی ایسی اسٹوریز بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں جس نے ملک کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا لیکن وہ اتنے برس کا تجربہ رکھنے کے باوجود کچھ ایسا کر جاتے ہیں جس سے ملک میں بسنے والے کئی گروہوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔

عمر چیمہ کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جن کی پیش کردہ کہانی بہت تحقیق اور باوثوق ذرائع کے تصدیق کے بعد ہی اخبار کا حصہ بنتی ہے۔ انھوں نے ہی ملک میں پانامہ کا وہ ہنگامہ برپا کیا جس نے عدلیہ اور حکومت کو ایک دوسرے کے سامنے ایسا لا کھڑا کیا جیسے کوئی بہو اپنے ساس سسر سے یہ کہہ دے کہ میں آپ کا بیٹا لے کر الگ ہورہی ہوں۔ جیو اور جنگ جسے پی ٹی وی ٹو کہلانے کا اعزاز حاصل ہے اور اس کو نواز شریف کا ترجمان چینل بھی کہا جاتا ہے اسی کے صحافی عمر چیمہ کے نکالے گئے پانامہ لیکس کی وجہ سے آج نواز شریف وزارت عظمی کی اہم کرسی سے بلکہ پارٹی کی سربراہی تک سے محروم ہوگئے۔ عمر چیمہ کی اس کاوش کے بعد سے ایسا لگنے لگا جیس ے عدلیہ کے پاس صرف یا تو پانامہ کیس رہ گئے یا پھر ڈبے کے دودھ اور اجینو موتو کے خلاف ایکشن کے فیصلے لینا۔

ملک میں ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ اب پاکستان میں لوگ ٹی وی دیکھتے ہوئے نا اہل کیے جانے والے سیاستدانوں کو کھل کر گالی دیتے ہیں اور پھر چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہتے ہیں دیکھا ہم کتنے دھوکے میں تھے ہمیں دودھ کے نام پر نہ جانے کیا کیا پلا کر ایسا پاگل کیا گیا کہ ہم ان بے ایمانوں کو ووٹ دے کر ایوانوں میں لے آئے۔ اس کام کے پیچھے اگر کوئی ہے تو وہ صحافی عمر چیمہ کی وہ لیکس ہیں جس نے اس ملک کی بچی کھچی عزت کی لیکج کو اب ایلفی سے بند کرنے پر عدلیہ کو دن رات کام پر لگادیا۔ لیکن پھر بھی جنگ اور جیو کو آج بھی نواز شریف کا ماہوار بندھا چینل اور اخبار کہا جاتا رہا۔

عمر چیمہ کو بھی یہ کامیابیاں بہت بھانے لگیں اور نظر آنے لگا کہ ان کی تحقیقاتی رپورٹنگ نے اس ملک کی کایا پلٹ دی، سب قائد اعظم کے فرمان کام، کام اور صرف کام پر اب عمل کرنے لگ گئے تو انھیں خیال آگیا کہ ن لیگ تو لگی ٹھکانے کچھ رخ ہوجائے خان صاحب کی طرف تاکہ پاکستان میں خبر دہشت کا توازن برقرار رہے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ 2014 نہیں جس میں عمران خان تقریر کرتے تھے اور پھر جلسے کے دوران اور ختم ہونے کے بعد ان کے پر جوش کارکنان جیو کے رپورٹرز پر ایسے پتھر اور بوتلیں مارتے تھے جیسے حج پر شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں اور پھر وہیں حساب چکتا کر کے اگلے جلسے کی تیاری میں لگ جاتے۔

مجھے یاد ہے میں ان دنوں جیو میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کر رہی تھی اور کراچی میں عمران خان کے جلسے کے بعد جب شاہراہ فیصل سے کارکنان نے واپسی کا راستہ لیا تو میں جیو کا مائیک ہاتھ میں لئے نظر آگئی۔ اس روز مجھ پر تحریک انصاف کے کارکنان نے یہ انکشاف کیا کہ میرا باپ وہ نہیں ہے جس کا نام میرے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ میری ماں وہ نہیں ہے جو ٹی وی پر لائیو اپنی بیٹی کو کئی سو بھیڑیوں میں گھرے دیکھ کر مجبور ہوگئی کہ وہ صرف دعا کرے کہ بیٹی گھر خیر و عافیت سے پہنچ جائے۔ اس روز مجھے جن گالیوں نے نوازا گیا وہ میں نے کبھی زندگی میں نہیں سنی تھیں۔ میں اس مجمع میں تماشہ لگانے والے، مجھ پر ہنسنے والے اور پتھر بوتلیں مارنے والوں کو بغور دیکھ رہی تھی جن کی پوشاکیں قابل رشک اور وضع قطع بتارہا تھا کہ ان کا رہن سہن بھی بہترین ہوگا۔ جو خواتین ان مردوں کو ایسا کرنے پر اکسا رہی تھیں ان کے تن برانڈڈ کپڑوں سے ڈھکے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے اندر کی غلاظت صاف دکھائی دے رہی تھی۔

اس مجمع میں، میں نے دو نوجوانوں کو اس گاڑی کے پاس آتے دیکھا جس کی چھت پر کھڑے ہوکر میں اپنا پی ٹی سی ریکارڈ کر وارہی تھی تو یہ تماشہ شروع ہوا۔ یہ دونوں نوجوان کراچی کی نجی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ تھے اور میری ان سے ملاقات ان کی یونیورسٹی کے کچھ ایونٹس میں ہوئی تھی وہ مجمع کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے، ہاتھ جوڑ جوڑ کر مشتعل کارکنان کو مجھے ہراساں کرنے سے روکتے رہے۔ کبھی ہا تھ انکے سامنے جوڑتے تو کبھی مجھے بے بسی سے دیکھ کر معافی مانگتے اور پھر ان کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہوا اور میں نے ان دونوں نوجوانوں کو ہار مانتے اور روتے ہوئے دیکھا ایک نوجوان دونوں ہاتھوں نے چہرہ چھپائے روتا رہا دوسرا غصے سے سرخ چہرہ لئے تیزی سے پلٹا اور تھوڑی دیر بعد پولیس لے آیا۔ ہم آدھے گھنٹے بعد وہاں سے جان بچا کر پولیس کی موجودگی میں نکلے۔

دفتر آئے تو میں نے پہلا سوال یہ کیا کہ مالک کی وجہ سے صحافی کیوں پٹے، کیوں ذلیل ہو؟ بحث ہوئی، گزارشات رکھی گئیں لیکن اگلے دو روز بعد لاہور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لاہور میں ثناء مرزا تو ملتا ن میں ماریہ میمن، اسلام آباد میں فرحت جاوید اور آمنہ عامر کو ہراساں کیے جانے کے مختلف واقعات ہوئے۔ مرد حضرات کے ساتھ تو جو ہوتا تھا اس کی فہرست اور بھی طویل ہے لیکن جو نام میں نے گنوائے یہ تمام خواتین جیو سے وابستہ تھیں، مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ہم اس ادارے کا حصہ ہیں جن کے مالک سے تحریک انصاف کے چئیرمین نالاں ہیں اور جو لیڈر کو پسند نہیں وہ کیسے کارکنان کو بھائے گا؟

لیکن میرا گمان تب پاش پاش ہوا جب نیو نیٹ ورک کی کورٹ رپورٹر عفت حسن رضوی کو خان صاحب کی پی ایس ایل کے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کہنے کی اسٹوی کو بریک کرنے پر لعنت ملامت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار پھر مذہب کارڈ چلا اور عفت کے شوہر کو ایک غیر ملکی، غیر مذہب اور خفیہ ادارے سے وابستہ قرار دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عفت کہاں کی صحافی ہوئیں وہ تو مذہب اور دین کی متعین کردہ حدود تک کو پھلانگ گئیں اور ایک دشمن ملک کے شخص سے شادی کر بیٹھیں۔ عفت کے لئے وہ وقت مشکل تھا لیکن پھر وہ اس سے نکل گئیں لیکن میں سمجھ سکتی ہوں کہ جب تک یہ چلتا رہا ان پر کیا گزرتی ہوگی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان پر غداری اور کفر تک کے فتوی لگا دیے گئے۔

اسٹوری دائیں بائیں ہوگئی لوگوں نے ٹوئیٹر اور سوشل میڈیا پر خاتون رپورٹر کو سرچ کرنا شروع کیا کہ کون ہے وہ جس نے بلے بازوں سے پنگا لے لیا۔ اسی اثناء میں پچھلے برس مجھے معلوم ہوا کہ کہ فیس بک پر ایک ایسا آپشن بھی ہے جن میں ان لوگوں کے نامعلوم پیغامات آجاتے ہیں جو آپ کے پاس ایڈ نہ ہوں جب میں نے اس آپشن کو کھولا تو مجھے وہاں لگ بھگ کئی سو پیغامات ملے جو میں نے 2014 سے نہیں دیکھ رکھے تھے۔ ایک ایک کر کے پڑھنا شروع کیے تو اپنے نام مغلظات اور ذات ذات کی گالیاں پڑھنے کو ملیں جو اس دن کے بعد سے خان صاحب کے چاہنے والوں نے مجھے بھیجی تھیں جو مجھے اس روز پتھر مارنے سے رہ گئے تھے۔ انھیں پڑھتے ہوئے مجھے ان دونوں نوجوانوں کے معافی اور شرمندگی کے پیغامات بھی نظر آئے جنھوں نے اس ہجوم کو روکنے کی کوشش کی تھی اپنے پیغام کے ساتھ انھوں نے اپنے فون نمبر بھی بھیج رکھے تھے۔ میں نے انھیں فون ملایا تو انھوں نے نام سنتے ہی اتنے برسوں بعد فوراً ایسے معافی مانگی جیسے کل کی بات ہو انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اس روز بہت مایوس ہوئے انھیں اپنا آپ بے بس لگا اور پھر انھوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

دو روز قبل میں نے ٹوئیٹر پر عمر چیمہ کی بیٹی لبنی چیمہ کے نام سے ایک اخلاق باختہ ٹرینڈ دیکھا، کہانی معلوم کی تو پتہ چلا کہ عدت میں نکاح کرنے کی اسٹوری کے اشاعت کے بعد یہ ٹرینڈ سامنے آیا جس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ عمر چیمہ کی بیٹی خود اپنے والد کے خلاف میدان میں آئی ہے۔ میں نے اسلام آباد اپنے ان دوستوں سے رابط کیا جو عمر چیمہ کے قریبی دوست ہیں انھوں نے بتایا کہ یہ اکاونٹ جعلی ہے اور اس سے جڑی تمام تر کہانیاں من گھڑت ہیں۔ کل میں نے ایک نیا ٹرینڈ دیکھا جس میں ایک بار پھر سے جیو کو نشانہ بنایا گیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ اب معاملات مزید بدتر ہوں گے۔ مجھے اپنی ان ساتھی خواتین رپورٹرز کی فکر ہونے لگی جو اس ادارے میں ہیں کہ کہیں اس بدبو دار جو ہڑ میں مارے جانے والے پتھر سے ان خواتین کے اوپر نا حق چھینٹے نہ پڑ جائیں جنھوں نے یہ جنگ چھیڑی ہی نہیں۔

مجھے بذات خود عمر چیمہ کی عمران خان کی تیسری شادی کی خبر دینے اور اس پر قائم رہنے پر خوشی ہوئی۔ جب تصاویر سامنے آئیں تو وہ تصاویر چیخ چیخ کر بتارہی تھیں کہ عمر چیمہ درست تھے۔ عمرا ن خان نے اپنے طور پر اس نکاح کو راز میں رکھنے کے لئے قابل اعتماد لوگوں کو اس اہم دن میں شامل کیا۔ یہاں تک وہ رہنما جن کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ ہر وقت خان صاحب کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی مشاورت کے بناءوہ کوئی قدم تک نہیں اٹھاتے وہ تک اس نکاح میں دکھائی نہیں دیے۔ لیکن جو لوگ عمر چیمہ نے بتائے وہ تمام لوگ تصاویر میں دکھائی دیے یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے اور عمر چیمہ کو اس اسٹوری پر داد دینا بنتی بھی ہے۔ لیکن اس کے بعد چھپنے والی اسٹوی جو عدت میں نکاح سے متعلق ہے وہ اس جید صحافی کی ایک ایسی سنگین غلطی ہے جس پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

تجربے کی بنیاد پر میں عمر چیمہ سے کئی برس پیچھے ہوں لیکن اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو صحافت میں اسٹوری کو متوازن بنانے کے لئے دونوں طرف سے رائے لینا ضروری ہے ایک ایسی خاتون جو مشہور و معروف نہیں عمران خان کی منکوحہ بننے سے قبل کوئی ان سے واقف نہ تھا اور اس نکاح اور عدت والے مسئلے پر وہ کوئی بیان دینے آ بھی نہیں سکتیں وجہ ان کا پردہ ہو یا کچھ بھی، ان کے اوپر رکھ کر جو بحث چھیڑی گئی وہ درحقیقت ’ مذہب کارڈ ’ کا استعمال ہے جس نے ہزاروں سوالات کو جنم دیا۔ سزا اور جزا خدا کے ہاتھ میں ہے کس نے برسوں عبادت کرنے کے باوجود کس عمل سے جہنم کمائی تو کس زاہد نے رند کے ساتھ بیٹھنے ک ے باوجود جنت میں جگہ بنائی اس کا فیصلہ بندے نہیں کرسکتے۔

ایک لیڈر کے حوالے خبر دینا ایک صحافی کا حق اور فرض ہے لیکن صحافت کرتے ہوئے اخلاقی پستی کو چھو جانا، ذاتیات اور نجی زندگی میں بہت آگے تک چلے جانا قابل ستائش نہیں قابل مذمت ہے۔ جب بابا رحمتے کہتا ہے کہ اس ملک میں گٹر جرنلزم ہورہی ہے تو کیوں برا لگتا ہے؟ کیوں کہ اسے یہ کہنے کا موقع ان صحافیوں نے دیا ہے جو تحقیقی صحافت کمرے کے اندر کی خبر دینے کو اس سے منسوب کر کے صحافتی ذمہ داری سمجھنے لگے ہیں۔

بحیثیت ایک صحافی مجھے اس عدت کے معاملے کو چھیڑنے پر عمر چیمہ سے شکایت ہے کیوں کہ یہ اسٹوری دینے کے بعد جو کچھ ان کی بیٹی سے منسوب کر کے سوشل میڈیا کا حصہ بنایا گیا اور جس قسم کی زبان وہاں خان صاحب کی پارٹی کے چاہنے والوں نے استعمال کی وہ تحریری و زبانی ریپ سے کم نہیں۔ مجھے وہ سب پڑھتے ہوئے محسوس ہورہا تھا کہ جو مرد یہ سب لکھ رہے ہیں ان کے گھر میں رہنے والی مائیں، بہنیں، بیٹیاں ٹی وی پر کسی مظلوم عورت کی ریپ کی خبر پر چینل بدل دیتی ہیں وہ غریب اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ عورت کے جس کے استحصال پر وہ توبہ توبہ کر رہی ہیں۔ وہی استحصال کرنے والوں کی دی ہوئی اس چہار دیواری میں وہ خود کو محفوظ سمجھ رہی ہیں۔ افسوس عمر چیمہ بھی بلاواسطہ اسی گروہ کا حصہ بن گئے جن کا کام عورت کا استحصال کرنا ہے۔ جس کیچڑ میں انھوں نے پتھر مارا ہے کاش وہ خود ہی اکیلے اس کے بعد کے اثرات سہتے اور چھینٹے بھگتتے، لیکن وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’بوتا کوئی ہے اور کاٹتا کوئی اور ہے‘۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar