بھاڑ میں جاؤ کی پالیسی میں سکون ہے


دنیا کیا ہے کس طرح چل رہی ہے؟ انسان کا سراسر اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، جو خالق ہے بس وہی چلا رہا ہے، انسان کا بس چلے تو شاید دنیا اگلے منٹ میں ختم ہو جائے، کھا جائیں سب ایک دوسرے کو، نوچ نوچ کے مار ڈالیں ایک دوسرے کو۔ لوگ اب ایک دوسرے پر یقین بہت کم کرتے ہیں۔ دو پیار کرنے والے لوگ بھی جب ایک دوسرے جب مکمل یقین نہیں کر پاتے تو میں اپنے ساتھ بیٹھے کسی انسان پر یقین کیسے کروں۔ جب بہن بھائیوں کو شک ہوتا ہے کہ میرا بھائی باپ کا پیسا زیاد استعمال کر رہا ہے، بہنوں کو ہوتا کہ امی نے بڑی بہن کو سوٹ اچھا لے دیا ہے مجھے سستا لے دیا ہے تو میں اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں پر یقین کیسے کروں کہ ان کے دل میں میرے لیا کیا ہے وہ اچھا سوچتے ہیں یا برا سوچتے ہیں۔ ہم جب کسی ایک جگہ کام کر رہے ہوتے ہیں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کون کیسا ہے؟ کون ہم سے خوش ہے اور کون نہیں۔ کیا سب کو خوش رکھنا ضروری ہے؟

میں پہلے یہ سب سوچتی تھی کہ سب مجھ سے خوش رہیں، کوئی ناراض نہ ہو، لیکن اب شاید تجربہ انسان کو بدل دیتا ہے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے آپ انسان کو خوش نہیں کر سکتے۔ کسی بھی رشتے میں آپ کسی کو خوشی نہیں کر سکتے۔ ماں باپ بھی برا مان جاتے ہیں۔ ہفتے کے چھ دن گھر وقت پر چلے جائیں جا کر جو امی کہیں وہ کام بھی کریں بڑی فرمانبرداری بھی دیکھائیں تو ایک دن لیٹ ہونے پر یہ لازمی سننے کو ملتا ہے کہ تمھیں تو صرف باہر رہنے کا شوق ہے گھر آنے کی پرواہ ہی نہیں۔ گاڑی میں ہی بستر رکھ لو۔

بس گھر والوں اور باہر کے رشتوں میں ایک فرق ہوتا ہے، گھر والے منافق نہیں ہوتے۔ آپ کی اصلاح کے لئے آپ کو برا بھلا بولتے ہیں۔ لیکن باہر کے لوگ آپ کو یقینا برا بنانے کے لئے آپ کی تعریف بھی کرتے ہیں۔

تو باقی لوگوں کو خوش کیسے کریں۔ اب دل کرتا سب کے لئے ایک ہی فقرہ صبح دوپہر شام بولا جائے۔ بھاڑ میں جاؤ۔
زندگی اپنی ہے کسی کے لئے نہیں جی سکتے۔ عمران خان اچھا لیڈر نہیں ہے لیکن ان کی ایک بات جو مجھے بہت پسند ہے وہ یہ کہ وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ آج تک جو دل میں آیا وہ کیا ہے۔ ان کی سیاست پر بات تو میں کر نہیں سکتی نہ ہی کرنا چاہتی ہوں کیونکہ عمران خان سیاسی بندہ نہیں ہے، مجھے یاد ہے دوہزار گیارہ میں میں عمران خان کو لیڈر مانتے ہوئے لوگوں سے لڑتی تھی، مجھے لگتا تھا وزیراعظم عمران کو بننا چاہیے، اس سے اچھا لیڈر کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن دوہزار تیرہ کے الیکشن میں مایوسی ہوئی جب عمران خان وزیراعظم نہ بن سکے۔

لیکن بعد میں عمران خان کے حالات دیکھ کر لگتا رہا کہ وہ وزیراعظم بن ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کے پاس وہ صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن عمران خان نے کیا وہی جو ان کا دل کیا۔ شادیاں کیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کیں۔ میں نے عمران خان کی تیسری شادی پر اپنی ممانی کو مبارک دی اور ان سے پوچھا کہ کیا ابھی بھی آپ کو لگتا ہے کہ عمران خان نے ٹھیک کیا۔ شادی کرنا غلط نہیں تیسری ہو یا چوتھی اس کا حق ہے لیکن کیا طریقہ درست ہے تو انھوں نے بھی کہا کہ نہیں یہ شادی کا طریقہ درست نہیں، عمران خان نے اپنی فیملی میں کسی کو نہیں بلایا اپنی بہنوں میں سے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ کیا ایسا بندہ ٹھیک رہتا ہے کیا ایسا ہونا چاہیے کہ کسی کی پروا نہ کی جائے۔ بھاڑ میں جاؤ۔ کیا اسی وقت کے لئے ہوتا جب انسان صرف اپنی سنتا ہے اور کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔

کیا اتنا بے پرواہ اس دنیا میں رہا جا سکتا ہے کہ ہم دوسروں کی نہ سنیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزاریں۔ میں جتنا بھی خود کو سمجھا لوں کہ لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی لیکن ایسا ممکن نہیں، ہمیں بہت سے چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، ارد گرد دیکھ بھال کر رہنا ہوتا ہے۔ لوگوں کی پرواہ ضروری ہے۔ بس سوچ ہی سکتی ہوں کہ، بھاڑ میں جاؤ۔

میں لوگوں سے بہت سیکھتی ہوں جب کوئی بات بتا رہا ہو یا اپنا تجربہ شئیر کر رہا ہو تو سنتی ہوں اور کوشش ہوتی ہے عمل بھی کروں اچھی بات کی تلاش میں رہتی ہوں۔ میں کل اپنے ایک کولیگ سے بات کر رہی تھی آفس میں تو انھوں نے کہا کہ امبرین ہمیشہ مائیکرو لیول پر سوچوں۔ میکرو لیول پر نہیں سوچنا کبھی بھی، مطلب آپ جب بہت بڑے افسر بھی بن جائیں تویہ نہ کوئی آپ کا ملازم (ایمپلائی ) آپ کو سلام نہ کرے اور ساتھ والے افسر کو سلام کر جائے تو یہ مت سوچنا کہ اس نے مجھے سلام کیوں نہیں کیا میں بھی تو اسی پوزیشن پر ہوں۔ مجھے کیوں نہیں سراہا جاتا کام تو میں اس بندے سے زیادہ کرتی ہوں۔ ایسی باتیں نہیں سوچنی کبھی۔ جس نے آپ کو سلام نہیں کیا اس کے بارے میں غلط سوچ لیں گے تو آپ میں اور اس میں فرق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).