سو سال پہلے ضرورت رشتہ کے ضروری کوائف


محترم امجد سلیم علوی صاحب نے روزنامہ زمیندار لاہور، 23 نومبر 1914 کا یہ تراشہ کھوج نکالا ہے جو کہ ایک نیک سید صاحب نے بغرض رشتہ شائع کیا تھا۔

تعجب ہے کہ جس اشتہار پر سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے پر کسی نے اعتراض کرنے کی جسارت نہیں کی ہے، اب بعض عناصر اس کا ٹھٹھا ایسے اڑا رہے ہیں جیسے پتہ نہیں کیا غضب کر دیا ہو ان شاہ صاحب نے۔ اس اشتہار پر اعتراض سمجھ سے باہر ہے۔ غالباً معترضین حسد اور رشک کے علاوہ جلن کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سید صاحب کے والدین دنیا میں نہیں رہے تو سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں بچا تھا، اس لیے وہ جلدی کر رہے تھے۔ اشتہار میں بفضلہ آمدنی تین ہزار ماہانہ ہونے اور والدین و قریبی رشتے داروں کے فوت ہونے کا ذکر اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ کہنا غلط ہے کہ اس مرگ اعزا پر دنیا بھر میں خوشی کا اعلان کر رہے ہیں۔ اوپر سے ماشا اللہ ان کی آمدنی بھی سو سال پہلے کے تین ہزار ماہانہ کی تھی۔ یعنی آج کے دور کے حساب سے اسے تیس لاکھ روپے ماہانہ سے بھی زیادہ جانیے۔ کوئی کمزور کردار والا شخص ہوتا تو ایسی آمدنی رکھتے ہوئے عیاشیوں میں پڑ جاتا اور گناہ و معصیت کی زندگی گزارتا مگر سید صاحب نے مانگا تو بس ایک رشتہ مانگا اور وہ بھی بہت جلد ۔ معترضین کو احساس کرنا چاہیے کہ سید صاحب کو یہ جلدی اپنی ذات کی وجہ سے ہرگز نہیں ہو گی بلکہ اس کی وجہ اس زمانے کی لڑکیوں کی بھلائی ہی ہو گی کیونکہ رشتے میں دیر کر دی جائے تو کئی لڑکیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔

اشتہار میں اپنی اہلیت اور رشتے کی شرائط کا ذکر ہے۔ اس پر اعتراض بھی غلط ہے۔

معترضین کہتے ہیں کہ اعضا کے صحیح سالم ہونے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ جہاں تک اعضا کے صحیح سالم ہونے کا تعلق ہے تو اس وضاحت کی وجہ بھی عیاں ہے۔

سید صاحب نے برائے رابطہ ایک سائیکل والے صاحب کا پتہ دیا ہے۔ حضرت معترض کیا آپ واقعی یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ سو سال پہلے کی سائیکل کتنی ظالم اور مردم کش سواری ہوا کرتی تھی؟ شرفا اسے بجا طور پر شیطان کا چرخہ قرار دیتے تھے اور اس کی بجائے گدھے، خچر یا اپنی دسترس میں موجود کسی دوسرے جانور تک کی سواری کو ترجیح دیتے تھے۔ سائیکل کو استعمال کرنے والے کے دانت سے لے کر پیر تک بشمول درمیانی اعضا کے، ہر شے کا مجروح ہونا عام تھا۔ ایسے میں یہ وضاحت کہ تمام اعضا درست کام کر رہے ہیں، سائیکل سواروں پر ایک عام شبے کا ازالہ تھا۔

بلکہ عین ممکن ہے کہ اسی وجہ سے ہی رشتے کا اشتہار دینا پڑا ہو کہ لوگ باگ یہ مت کہیں کہ سید صاحب اب صرف سائیکل پر ہی سواری کی علت میں مبتلا ہو چکے ہیں بلکہ واضح ہو جائے کہ ان کی امور دنیا میں دلچسپی برقرار ہے۔

جہاں تک لڑکی کی عمر کی بات ہے تو سید صاحب نے تو اس دور کے حساب سے کافی عمر رسیدہ لڑکی کا انتخاب کیا ہے۔ اس اشتہار کے چھپنے سے محض چند سال پہلے شائع ہونے والی منشی نولکشور کی طلسم ہوشربا کی معشوقہ خاص و عام و پیر و طفل، ملکہ بہار جادو کی عمر چودہ سال کی بیان کی گئی ہے۔ وہ اس عمر میں بھی دنیا جہاں کے بادشاہوں سے لڑتی پھرتی تھی اور وہ اس کے عشق کا دم بھرتے تھے۔ بعض واقعات سے یہ شبہ بھی ہوتا ہے کہ وہ مے خوری کے عارضے میں مبتلا ہونے کے علاوہ، یا ممکن ہے کہ اسی سبب سے سید صاحب کی کنوارگی کی شرط پر بھی پوری نہیں اترتی تھی۔

ممکن ہے کہ سید صاحب نے بھی طلسم ہوشربا پڑھ رکھی ہو اور واضح کر دینا چاہتے ہوں کہ خواہ ملکہ بہار جیسی قتالہ عالم ہی کیوں نہ خط و کتابت کرے، وہ اصولوں پر ہرگز بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور چودہ سالہ بہار جادو کی بجائے اس کی ہمشیرہ بزرگ ملکہ حیرت جادو کو ہی ترجیح دیں گے جو کہ گمان غالب ہے کہ پندرہ سال کی ہی ہو گی۔ جو شخص ملکہ بہار جادو کو ٹھکرانے کا حوصلہ رکھتا ہو، اس کے عزم اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی تعریف کی جانی چاہیے کجا یہ کہ اسے برا کہا جائے۔

اس کے علاوہ سید صاحب کے اشتہار سے یہ بھی عیاں ہے کہ وہ کوئی نو دولتیے نہیں ہیں بلکہ خدا کے فضل سے ان کے ہاں روپے پیسے کے علاوہ علم و فضل کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ شرائط میں لڑکی کے شریف، خوشرو اور خوش خو ہونے کے علاوہ خواندہ ہونے کی شرط بھی ہے۔ آپ اگر نقص ہی نکالنا چاہتے ہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ سید صاحب خ کا پہاڑہ پڑھ رہے تھے، مگر اہل نظر کو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ محض خواندگی کی شرط کا وزن باندھنے کے لیے خ کی گردان کر رہے تھے تاکہ بات کا اثر گہرا ہو۔

آپ کہیں گے کہ ہم اس معاملے میں محض حسن ظن دکھا رہے ہیں اور ایسی کوئی بات ہرگز نہیں ہے۔ نہیں حضرت، آپ اس سطر پر غور تو کریں۔ سید صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ تمام خطوط محفوظ رکھیں گے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ سید صاحب لکھی ہوئے کاغذ کو محفوظ رکھنے کے عادی ہیں، یا دوسرے لفظوں میں ان کے پاس قدیم و جدید مخطوطات کا پورا کتب خانہ موجود ہو گا۔ اب یہ تجزیہ کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر خواندگی کی شرط کو ملاحظہ کیجیے تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے۔ ہمیں تو گمان ہے کہ سید صاحب اخبار میں جگہ کی کمی کی وجہ سے الفاظ بچا گئے ہیں ورنہ یہ شرط بھی ہوتی کہ لڑکی خواندہ ہونے کے علاوہ کتابی چہرے کی مالک بھی ہو تاکہ سید صاحب کا دیر سویر کسی وقت مطالعے کا من چاہے تو ایسا کرنے میں دقت نہ ہو۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments