پارلیمان کا سوان سانگ


انگریزی ادب میں Swan Songکا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ اُردو میں شاید اسے وقتِ رخصت دل کی باتیں کہہ دیناکہا جاسکتا ہے اور شدید جذباتی صورتوں میں وہ سچ جو وقتِ نزع بیان ہو۔

بہرحال ایک Swan Songہوتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے منگل کی شب سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ Swan Songتھا۔اس کا طلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے خیالات خدانخواستہ نزع کی حالت میں بیان ہوئے۔ بات فقط اتنی تھی کہ وہ بطور رکن سینٹ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد اس ایوان سے رخصت ہورہے تھے۔ ان کا وقتِ رخصت تھا مگر کئی حوالوں سے ان دنوں ہماری پارلیمان کا وقتِ نزع چل رہا ہے۔لہذا بابر صاحب کی تقریر کو ہم پارلیمان کا سوان سانگ بھی کہہ سکتے ہیں۔

بات آگے بڑھانے سے قبل میرے لئے یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ ملکی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے کئی لوگوں کی طرح میں نے بھی ان کی تقریر سنتے ہوئے ’’گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ محسوس کیا۔

فرحت اللہ بابر صاحب سے دوستی تو نہیں ذاتی شناسائی بہت پرانی ہے۔ مہذب اور شریف انسان ہیں۔ تعلق ایک ایسے گھرانے سے جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں جانے کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے عہدے کو واقعتا Public Serviceکے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسے ناجائز دولت جمع کرنے کا وسیلہ نہیں بناتا۔

بابر صاحب نے سرکاری نوکری سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ وزارتِ اطلاعات سے وابستہ ہوئے تو پاکستان اٹامک انرجی کمشن کی اخباروں سے PR کے ذمہ دار بنے۔ ضیاالحق کے دور میں لیکن یہ ساتھ نبھانا مشکل ہوگیا۔ انگریزی اخبارات میں مضامین لکھ کر دل کی بھڑاس نکالنا شروع ہوگئے اور بالآخر ایک انگریزی اخبار کے نگراں مدیر۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اپریل 1986ء میں طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں تو بابر صاحب ان کے ترجمانوں میں شامل ہوگئے۔ ترجمانی کا یہ عمل محترمہ کی دونوں حکومتوں میں بھی برقرار رہا اور اس تعلق کو انہوں نے پیپلز پارٹی کے کڑے وقتوں میں بھی بہت استقامت سے قائم رکھا۔ محترمہ سے ذاتی تعلق والے چند افراد ہیں جنہیں آصف علی زرداری نظرانداز کرہی نہیں سکتے۔

فرحت اللہ بابر کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتاہے۔ اس باعث ایوان صدر منتقل ہوجانے کے بعد آصف علی زرداری نے انہیں ایوانِ صدر کا ترجمان بھی مقرر کردیا تھا۔ سینٹ میں خیبرپختونخوا سے پی پی پی کے نمائندے بھیجنے کا موقع ملا تو بابر صاحب کو وہاں ایک نشست بھی دلوادی گئی۔

ایوانِ بالا کا رکن منتخب ہونے کے بعد بابر صاحب نہایت دلجمعی کے ساتھ کچھ ایسے قوانین کی تدوین اور ان کی منظوری کی کاوشوں میں مصروف رہے جن کا مقصد پارلیمان کی اہمیت، بالادستی اور تقدس کو اجاگر کرنا ہے۔ اپنی کاوشوں کی وجہ سے ہماری دائمی اشرافیہ ان سے مسلسل ناراض رہتی ہے۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری انہیں کبھی Disown بھی نہ کر پائے۔

منگل کے روز بابر صاحب نے سینٹ میں جو الوداعی تقریر کی اس نے مگر ’’ایک زرداری…‘‘کو یقینا پریشان کردیا ہوگا۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویزاشرف نے غالباََ ان ہی کے حکم پر ایک بیان دیا۔ وضاحت فرمادی کہ بابر صاحب نے پیپلز پارٹی کی ترجمانی نہیں کی محض اپنے ذاتی خیالات بیان کئے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کے مذکورہ بیان کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ زرداری صاحب پسند کریں یا نہ کریں ،پیپلز پارٹی کے ’’نظریاتی‘‘ رہ گئے لوگوں کی اکثریت دل میں وہی سوچتی ہے جو فرحت اللہ بابر نے منگل کی شب سینٹ میں کھڑے ہوکر بیان کیا۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی ’’جیالوں‘‘ کا اصل ’’شریک‘‘ مگر نواز شریف ہیں۔جنرل ضیاالحق کے زمانے سے یہ لوگ جمہوری جدوجہد کی وجہ سے کافی مشکلات میں رہے۔ ضیاء کے سیاسی منظر نامے سے ہٹ جانے کے بعد ان جیالوں کی نظر میں نواز شریف ان کے سیاسی ولی عہد ہوگئے۔ جنگ جاری رہی۔ نواز شریف جب ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘کا ورد کرتے ہوئے ’’نظریاتی‘‘ ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان جیالوں کو داغِ دل یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

آصف علی زرداری نے ان دنوں جو ’’لائن‘‘ اختیار کررکھی ہے وہ ان جیالوں کو بہت بھاتی ہے۔ فرحت اللہ بابر جیسے افراد البتہ ذراہٹ کر سوچتے ہیں۔ معاملہ رضا ربانی کابھی فرحت اللہ بابر جیسا ہے۔ سندھ سے سینٹ کے لئے خالی ہوئی نشستوں کو پُر کرنے کے لئے ان کا نام بھی پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں ڈالا گیا تھا۔ ترجیحی فہرست میں لیکن وہ شامل نہ تھے۔ غالباً اس ضمن میں آخری نمبروں پر تھے اور کئی بار گنتی کے بعد اصولاً Pointsکی بنیاد پر دوبارہ سینٹ میں آنا نصیب ہوا۔

نون کے لاحقے والی مسلم لیگ تقریباً واضح الفاظ میں کہے چلی جارہی ہے کہ اگر زرداری صاحب رضا ربانی کو سینٹ کا دوبارہ چیئرمین منتخب کروانا چاہیں تو وہ ان کے تقریباً بلامقابلہ انتخاب کے لئے تیار ہے۔ ’’ایک زرداری…‘‘ مگر اس پر راضی نہیں ہورہے۔ ان دنوں اس ضمن میں ان کے چہیتے سلیم مانڈوی والا نظر آرہے ہیں۔ اس کے بعد شیری رحمان سینٹ کی پہلی خاتون چیئرمین ہوتے ہوئے ’’تاریخ‘‘ بنا سکتی ہیں۔ ان دونوں کی بات نہ بن پائے تو فاروق نائیک کی لاٹری بھی نکل سکتی ہے۔

’’ایک زرداری…‘‘سیاست کو شطرنج کی طرح کھیلتے ہیں۔ اپنے دل کی بات شاذہی عیاں کرتے ہیں۔ ذاتی طور پر میرے بہت ہی گرم جوش دوست ہیں۔ میں بہت مجبور کروں تو اشاروں کنایوں میں دل کی بات بتادیتے ہیں۔ اشاروں میں کہی باتیں مگر ’’خبر‘‘ نہیں بناتیں۔ میں ذات کا رپورٹر ہوں۔ آصف علی زرداری سے مجھے خبر چاہیے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

’’خبر‘‘ کے ضمن میں موصوف سے قطعاً مایوس ہوجانے کے بعد میں ان سے محض رسمی سلام دُعا سے کام چلاتا ہوں۔ اس حقیقت کے تناظر میں میرے لئے قطعی ناممکن ہے کہ خود سمجھ کر آپ کو بیان کرسکوں کہ آصف علی زرداری کے ذہن میں ان دنوں کیا ہے۔ رضا ربانی کو چیئرمین سینٹ کا امیدوار بناکر وہ ’’سب پہ بھاری‘‘ ثابت ہونے کو تیار کیوں نہیں ہورہے۔ عمران خان کو کسی نہ کسی صورت اپنا ہم سفر بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔

شاید ان کا مقصد اس ملک میں اقتدار کی بساط سجانے والی قوتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ’’میں نے لاکھوں کے بول سہے‘‘مگر ’’ضدی‘‘ عمران تعاون کو تیار ہی نہ ہوئے۔ نواز شریف کو مکمل طورپر ناکام بنانے کے لئے لگائی گیم اگر کامیابی سے ہم کنارنہ ہوئی تو دوش آصف علی زرداری کی ذات یا جماعت کو نہ دیا جائے۔ شاید ایسا کرتے ہوئے وہ آئندہ انتخابا ت میں سندھ کو GDA اور مصطفیٰ کمال کی چلائی ہٹی کے اتحاد سے بچالیں۔ پیپلز پارٹی ہی سندھ میں 2008 کے بعد تیسری بار حکومت بنالے اور قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی کے بل بوتے پر ملکی سیاست کا اہم مہرہ بھی رہے۔

مجھ ایسے لوگوں کو زرداری صاحب ’’دانشور‘‘ کہتے ہیں۔ شاید یہ کہنے کے بعد مجھے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ لقب ’’طنز‘‘ کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ فرحت اللہ بابر بھی منگل کی تقریر کے بعد سے ’’دانشور‘‘ ہوچکے ہوں گے۔ اس تقریر کی ریگولر اور سوشل میڈیا میں بہت پذیرائی ہوئی ہے۔ ایسی پذیرائی کو لیکن اقتدار کے سفاک کھیل میں مشغول کردار کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔

ہماری پارلیمان پہ بہرحال اس وقت نزع کا عالم طاری ہے۔ ہمارے حق گو کالم نگاروں اور اینکر خواتین وحضرات کی مہربانیوں سے پارلیمان کئی مہینوں سے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی آماجگاہ بنادی گئی ہے۔ خلقِ خدا کو متحرک عدلیہ کی بدولت نئے ’’مسیحا‘‘ بھی مل چکے ہیں۔ ایسے ماحول میں فرحت اللہ بابر کا بتایا Defacto اور Dejure ریاست کے مابین فرق کون سمجھ پائے گا۔منگل کی شپ اپنی الوداعی تقریر کے ذریعے فرحت اللہ بابر نے جو نظم کہی اسے ’’آشوب شہر‘‘ سمجھ کر بے پناہ سراہنے کے علاوہ میرے پاس بھی اور کوئی خیال نہیں ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).