کیا ہم خواتین کا عالمی دن منانے کے اہل ہیں؟


کیا ہم خواتین کا عالمی دن منانے کے اہل ہیں، قطعی نہیں ہم زبانی تو بہت شور شرابا کرتے ہیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں لیکن ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہے کونسا میدان ہے جہاں عورت کو عزت دی ہو اس کی حوصلہ افزائی کی ہو، جہاں بھی خواتین نے ترقی کی، آگے قدم بڑھایا اپنی ہمت کے بل بوتے پر ورنہ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو ہمیشہ نیچا دکھانے کی کوشش ہی کی گئی ہے۔ یہ جاہلوں کا نہیں پڑھے لکھے مردوں کا بھی ہے بنا تصدیق کیے عورت کے کردار پر کیچڑ اچھال دیتے ہیں۔ کتنے ہی پڑھ لکھ جائیں کتنا ہی بڑا عہدہ مل جائے، مرد عورت کو تحقیر کی نظر سے ہی دیکھتا ہے کچھ تو الزام تراشی سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسے مرد آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو خواتین کی ترقی کو دل سے مانتے ہیں اور سراہتے ہیں۔ ورنہ تو اس ملک کی عورت جتنی بھی ترقی کر جائے کہلاتی پاؤں کی جوتی ہی ہے۔

خواتین کے عالمی دن پر ہمیں اس سوچ اس رویے کو بدلنے کی سعی کرنی چاہیے تاکہ محبت اور احترام کی فضا پیدا ہو۔ ساتھ کام کرنے والے مرد خواتین کو بظاہر نہیں دل سے عزت دیں۔ پیٹھ پیچھے کردار کشی نہ کریں، خواتین سے کی ترقی سے جلن کے بجائے خوشی محسوس کریں۔

اس ملک کی غریب عورت کا حال تو اس سے بھی برا ہے وہ کام بھی کرتی ہے، زیادتی کا نشانہ بھی بنتی ہے، رواجوں کی بھینٹ بھی چڑھتی ہے۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ ان خواتین پر مشتمل ہے جو وٹہ سٹہ، ونی، کاری اور قدیم رواجوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ فصل اچھی نہیں ہوئی وڈیرے کو حصہ دینا ہے کہاں سے دیں جوان بیٹی حویلی میں کام پر دے دی، کسی لڑکے نے دوسری برادری کی لڑکی سے محبت کی شادی کر لی یا بھگا کر لے گیا اس جرم کی سزا پنچایت اس کی بہن کو یا گھر کی دوسری لڑکی مخالف برادری والے کو بیاہ دی جاتی ہے بنا لڑکی کی مرضی کے، اسی طرح لڑکی کو کسی کے ساتھ کاری کا نام دے کر قتل کردیں گے تاکہ اپنا جرم چھپا سکیں۔

مردوں کے ہر جرم کی سزا عورتوں کو دی جاتی ہے، عورتیں ہی تاوان بنتی ہیں، عورتیں ہی ناکردہ گناہ کی سزا بھگتی ہیں۔ بھائی کےء جرم کی پاداش میں بہن کو سر بازار برہنہ کرکے گھمایا جاتا ہے کب سدھرے گا یہ نظام کب ہوگی قانون کی عملدارتی، اب تک کتنے مجرم پکڑے گئے اور کتنوں کو سزا ہوئی۔ میڈیکل کی طالبہ کے رشتے سے منع کرنے پر سر عام لڑکی کو مارنے والا فرار ہے اب تک نہیں پکڑا گیا، بشیراں کو برہنہ کرکے بے عزت کرنے والا مرکزی مجرم اب تک روپوش ہے، میٹرک کی طالبہ تانیہ کو رشتے سے منع کرنے پر ماں باپ کے سامنے قتل کرنے والا وڈیرہ آزاد ہے کسی کو سزا نہیں ملتی کب تک بنت ِ حوا انصاف کے لیے ترستی رہے گی۔ کب تک کام کرنے والی خواتین شہروں کے علاوہ، کھیتوں میں کام کرنے والی، بھٹوں میں اینٹیں بنانے والی، فیکٹریوں میں معمولی پیکنگ گرلز ظلم وزیادتی کا شکار ہوتی رہیں گی۔ اس کے لیے قانون تو بن گیا لیکن عمل داری کیسے ہوگی، با اثر لوگ رشوت دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔ پکڑ کیسے ہو۔

سال دو ہزار اٹھارہ کے خواتین کے دن کے لیے اقوام متحدہ نے موضوع رکھا ہے ” پریس اینڈ پاور ” یعنی کچھ منوانے کے لے اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ کام ہو جائے یہ سچ بھی ہے جب بچہ روتا ہے شور مچاتا ہے تب ہی ماں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ بھوکا ہے، ایسے ہی ہم عورتوں کو مل کر آواز اٹھانی ہے اور اتنا دباؤ ڈالنا ہے جس کی وجہ سے قانون کی عمل داری ہو اور عورت کو عزت کی زندگی ملے یہی خواتین کے عالمی دن منانے کا مقصد ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).