صرف مرد نہیں لڑکیاں بھی شکاری ہوتی ہیں


یہ 2006 کے ماہ رمضان کی بات ہے۔ مجھے راولپنڈی میں رہائش اختیار کیے ہوئے تین برس ہو گئے تھے۔ ملازمت کے ابتدائی سال تھے۔ ماہ رمضان میں دفتری اوقات مختصر کر دیے جاتے ہیں تاکہ ایک تو کام کا بوجھ نہ پڑے اور دوسرا یہ کہ روزے دار دنیاوی سلسلوں کو مختصر کر کے اپنا وقت عبادات اور یاد الٰہی میں گزار سکے۔ چناچہ ہمارے دفتر کی چھٹی بھی اڑھائی بجے ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن جوانی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ عبادات سے جلد از جلد فارغ ہو کر دل مچلتا ہے کہ دنیا داری کے جھمیلوں میں وقت گذارا جائے اور یوں افطار کا وقت جلدی آجائے۔

میں بھی سہ پہر اپنے فلیٹ سے نکل کر کسی شاپنگ مال وغیرہ میں چلا جایا کرتا تھا اور نظری تقاضوں کے تحت ادھر ادھر گھومتا پھرتا تھا۔ ایک دن دفتر کے ساتھیوں نے افطار کا منصوبہ بنایا۔ باہم مشورے سے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے باہر نو آغاز شدہ فوڈ اسٹریٹ کے نام پر اتفاق ہوا اور افطار سے کچھ پہلے ملنے کے وعدے کر کے تمام ساتھی اپنے اپنے گھروں کو ہو لیے۔

میں اپنی معمول کی آوارہ گردی سے فارغ ہو کر وقت سے کافی پہلے مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔ اس وقت کے فوڈ اسٹریٹ کے حالات آج سے بہت بہتر تھے۔ کشادہ اور صاف ستھری جگہ تھی۔ مختلف ریستوران کے میز کھلے احاطے میں ترتیب سے لگائے گئے تھے تاکہ روزہ دار کھلی ہوا میں بیٹھ کر روزہ افطار کر سکیں۔ موسم بھی خوش گوار تھا۔ میں نے وہاں ایک میز سنبھال لی۔ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے مگر ابھی مجھے انتظار کرنا تھا۔ کچھ اپنے دوستوں کا اور کچھ مغرب کی اذان کا جس کے بعد ہی روزہ افطار ہوتا۔ میں اسی انتظار میں سر جھکائے غور سے مینو کا جائزہ لے رہا تھا۔

تب ہی مجھے اپنے جسم میں چبھن سی محسوس ہوئی۔ میں نے ہڑبڑا کر ادھر ادھر کا جائزہ لیا مگر میرے آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر میں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی کہ کہیں کوئی کیڑا وغیرہ تو نہیں میرے کپڑوں پر چڑھا ہوا اور مجھے کاٹ رہا ہو۔ مگر کوئی کیڑا بھی نہیں نظر آیا۔ سر جھٹک کر میں نے ایک بار پھر مینو میں غرق ہونے کی کوشش کی۔ مگر مجھے مستقل جسم میں چبھن سی محسوس ہوتی رہی۔ اچانک مجھے یوں لگا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے ہی اکیلی بیٹھی بھوکی نظروں سے مجھے گھور رہی تھی۔

خدا کی پناہ۔ اس کی آنکھوں میں شدت کی جنسی بھوک نمایاں تھی اور اس کی نظریں مجھ پر ایسے جمی ہوئی تھیں جیسے کوئی درندہ اپنے شکار کی تاک میں ہو۔ میری عمر اس وقت تیس برس کی تھی اور میں کوئی ایسا پارسا بھی نہ تھا مگر ان نظروں کی تاب لانے کی ہمت مجھ میں بالکل بھی نہ تھی۔ مجھ سے نظریں ملتے ہی وہ مسکرائی مگر یہ مسکراہٹ بھی یوں تھی جیسے کوئی بھیڑیا دانت نکوس رہا ہو۔ میرے مساموں سے پسینہ پھوٹ پڑا۔ پسینے کی لکیر مجھے اپنی پشت پر نیچے کی طرف رینگتی ہوئی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔

میں نے جھینپ کر اس پر سے نظریں ہٹا لیں۔ مگر انسانی فطرت ہے کہ اس چیز پر بار بار نظر جاتی ہے جس پر نظر نہیں جانی چاہیے۔ لہٰذا نظروں کی آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہو گیا۔ ساتھ ہی ساتھ میرے ذہن میں یہ الجھن بھی چل رہی تھی کہ وہ صورت مجھے جانی پہچانی کیوں محسوس ہو رہی تھی۔ رہ رہ کر میری نظر اس جانب اٹھتی اور ہر بار اس کی نگاہیں میری جانب ہی نگراں ہوتی تھیں۔ تنگ آ کر میں نے اپنا رخ تبدیل کر لیا اور دوسری کرسی پر بیٹھ گیا جس کی پشت اس کی طرف تھی۔ اب مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میری پشت میں گویا کوئی برما سوراخ کرتا جا رہا ہو۔

جب میری نظریں اس پر سے ہٹ گئیں تو دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا۔ چند ہی لمحوں میں میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا او ر میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ ٹی وی کی ایک اداکارہ تھی۔ مجھے ذہن پر ذرا سا زور دینے سے یاد آ گیا کہ وہ راولپنڈی اسلام آباد کے ڈراموں میں گاہے بگاہے نظر آیا کرتی تھی۔ نسبتاً بڑی عمر کے اورعموماً سائیڈ رول میں۔ جب میں یہ جان گیا کہ وہ کون تھی تو بے اختیار میں نے اسے مڑ کر دیکھا۔ اس کی نظریں ہنوز مجھ پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ اس کے لب ہلکے سے وا تھے اور سامنے کے دانت جھلک رہے تھے۔ بالکل ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سوچ کے سہارے جنسی تلذذ کا مزہ لے رہی ہو۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad