خواتین کے عالمی دن کو کیسے منایا جائے؟


پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کو حقوق دلوانے کے ساتھ ساتھ انہیں با اختیار بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ کیا آج کے دن کوئی ماں، باپ یا بھائی اپنی بہن، بیٹیوں کو محفوظ سمجھ کر اسے اسکول سٹاپ تک چھوڑنے نہیں جائے گا؟ کیا آج کے دن ساس بہو کا جگھڑا نہیں ہوگا؟ کیا آج کے دن کسی بھی عورت کو جنسی ہراسائی یا تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ کیا آج کے دن خواتین کو ورثے میں ملے ہوئے گھریلو کام نہیں کرنے پڑیں گے؟

پاکستانی خواتین ہر شعبہ زندگی میں اپنے کام بخوبی سر انجام دے رہی ہیں اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے کو مردوں کو معاشرہ کہا جا تا ہے۔ ملک میں خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی بہبود کے لیے کئی پروگرام جاری ہیں۔ مگر ان تمام تر اقدامات کے باوجود ابھی بھی پسے ہوئے طبقے کی خواتین غربت کے گول چکر سے نہیں نکل پا رہی ہیں۔ دیہات سے لے کر بڑے بڑے شہروں کی کچی بستیوں، جھونپڑیوں اور گردو نواح میں رہنے والی خواتین اپنی زندگی گذارنے کے لیے دن رات جہدوجد میں مصروف عمل ہیں۔ ان لاکھوں خواتین میں سے چند ہی خواتیں ہماری معاشرے میں اپنا نام کمانے میں کامیاب ہو پاتی ہیں۔

دنیا بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کا نو منتخب سینیٹر کرشنا کماری کی وجہ سے چرچا عام ہے کہ پیپلز پارٹی نے اقلیتوں میں سے خاص طور پر ایک خاتون سینیٹر کا انتخاب کیا ہے جس کا تعلق تھر کے ایک غریب گھرانے سے ہے جو ایک خوش آئند اقدام ہے۔ اس خطے نے کئی ایسی بیٹیوں کو بھی جنم دیا جنہوں نے سیاست، معیشیت اور سماجی بہبود کے لیے کام کر کے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور ابھی بھی سینکڑوں خواتین ان کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی ہماری سوچ و فکر میں صدیوں پرانی فرسودہ روایات موجود ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کی عقل کو اس کے ٹخنوں میں سمجھا جاتا ہے اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ تھر کول میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنی اور ان کمپنیوں میں کام کرنے والے دانشور تھر کی خواتین کو ڈرائیورز کی نوکری دے کر با اختیار بنانے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ جیسے عورت کا با اختیار ہونا صرف ڈرائیوری تک ہی محدود ہے۔

ابھی بھی ملک میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے کے لیے خواتیں بنک اے ٹی ایم کے باہر کئی کئی دن اور کئی کئی گھنٹے قطاروں میں خوار ہوتی نظر آتی ہیں۔ خواتین کی محنت، عظمت اور بہادری کی جتنی بھی مثالیں دی جائیں وہ بہت کم ہوں گی مگر اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں عورت کا استحصال جاری و ساری ہے۔ عورت کو خاندانی جائیداد کے حصے سے ایسے نکالا جاتا ہے جیسے مکھن سے بال۔ اگر بھائی دوسری لڑکیوں سے دوستی کرے تو اس کا لڑکپن اور نادانی مگر بہن کسی لڑکے سے بات کرے تو بد چلن۔

آئے روز خواتین کو جنسی ہراسائی، کارو کاری، گھریلو تشدد اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب یونیورسٹیوں کی طالبات جنسی ہراسائی سے بچنے کے لیے عبایا پہنے پر مجبور ہوں اور ہماری درسگاہیں جنسی ہراسائی کرنے والے بھیڑیوں سے بھری ہوئی ہوں تب تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہاں سادہ لوح خواتین کی کیا صورتحال ہوگی۔ قانون ہوتے ہوئے بھی اگر آج خواتین کو زمین کے تنازعے، آپسی دشمنی کو ختم کرنے کے لیے ونی کیا جاتا ہو اور محبت کرنے یا پھر پسند کی شادی پر کارو کاری کیا جاتا ہو تو پھر مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون اور ادارے ناکام اور بے بس ہیں۔ آج بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے کسی کونے میں کسی لاچار خاتون کو ونی کیا جا رہا ہوگا، کسی کو کارو کاری کیا جا رہا ہوگا اور کسی کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہوگا تو کہیں پر گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہوگا۔ کیا آج کے دن ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بسوں اور ویگنوں میں خواتین کو روز مرہ کی طرح ہراسائی کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہو؟ کیوںکہ اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین کے دن کے حوالے سے منعقد تقریبات میں بھی خواتین کو ہراسائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آج بھی سندھ کے قرضوں میں ڈوبے ہاری خاندانوں کی خواتین کی عزتیں وڈیروں جاگیرداروں کے ہاتھوں تار تار ہوتی نظر آتی ہیں۔ آج بھی صوبہ سندھ میں تھرپارکر، دادو اور شھداد کوٹ کی خواتین کو پینے کے پانی کے حصول کے لیے کوسوں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ آج بھی سیکڑوں خواتین کھیتوں میں مزدوری کرتے، سلائی کڑھائی کرتے، اینٹوں کے بھٹوں میں کام کرتے نظر آتی ہیں جب کے ان کے مرد ہوٹلوں میں چائے پیتے، مرغوں کی لڑائی کرتے، مونچھوں کو تاؤ دیتے لڑکوں بغل گیر کرتے نظر آتے ہیں۔ خواتیں کو تحفظ دینا اور ان کو با اختیار بنانا صرف اور صرف قانون سازی یا پھر اشتہاز بازی سے ممکن نہیں بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں اپنے گھر سے شروعات کرنا پڑے گی۔ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا دن حقیقی معنوں میں منانے کی ضرورت ہے کہ اس دن مرد خواتین کا بھر پور ساتھ دیں خواتین کو تحفظ کا احساس ہو کوئی ہراسائی نہ ہو، تاکہ خواتین اپنے آپ کو پر اعتماد محسوس کر سکیں۔

کم از کم آج کے دن تو گھر کا تمام کام مرد کریں۔ اگر ہم صرف ایک دن یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین مانیں ہم حقیقی معنوں میں خواتین کا احترام، انہیں حقوق دلوانے اور با اختیار بنانے میں مکمل طور پر کامیاب ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).