خوبصورتی: کروی ڈول سے باربی ڈول تک


ماضی میں بادشاہوں کے درمیان جنگوں کی وجہ یا تو سلطنت ہوا کرتی تھی یا پھر ضرور کسی خاتون کی وجہ سے میدان کارزارتلواروں کی چمک سے روشن ور لہو سے رنگین ہوا کرتا تھا۔ دنیا بھر میں ان جنگیوں کے قصے مشہور ہیں۔ سلطنت شاہ ایران بھی ایک بڑی سلطنت ہوا کرتی تھی۔ لیکن جب میں نے تاریخی صفحات کی ورق گردانی کی تو شاہ ایران کے حرم پر نظر پڑی۔ ساتھ ہی لکھ ہوا تھا کہ ان محترمہ کی خوبصورتی کے چرچے تھے۔۔ ان تصاویر کو دیکھ کر عقل تقریبا حیرانگی کی حدوں کو چھوتی ہے کہ ایک صدی میں خوبصورتی کے معیار نے جتنی ترقی کی اتنی ترقی اگر سائنس کر لیتی توانسان نے ضرور چاند پر قدم رکھ لیا ہوتا۔ چاند پر انسان نے قدم رکھا ہے یا نہیں یہ ایک لمبی بحث ہے۔ لیکن تاریخی حقائق کے پیش نظر اتنا کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر واقعی انسان نے ایک بار چاند پر قدم رکھا تو آج ٹیکنالوجی میں ہزار ہا گنا اضافہ ہوا ہے آج کا انسان کیوں چاند پر قدم نہیں رکھ پا رہا؟

خیر بات خوبصورتی اور اس کے معیارات کی ہو رہی تھی۔ اُنیس ویں صدی کے ایرانی فرمانروا ناصر الدین شاہ قاچار کی 80 سے بھی زائد بیویاں اور کئی شہزادیاں تھیں۔ شہزادی عصمت الدولہ سے لے کر باربی ڈول تک حسن کے ارتقائی سفر میں ناجانے کتنے نشیب و فراز آئے۔ کس نے کب خوبصورتی کو بدلنے کی کوشش کی اور کس نے خوبصورتی کے معیارات طے کیے اس کی کچھ جھلک تو شاید میڈیا انڈسٹری یا تاریخ کی کتابوں درج ہوگی لیکن یہ سفر کہاں تک جائے گا کیونکہ اب تو باربی ڈول سے کام کروی(Curvy) ڈول تک نکل چکا ہے۔

اسی خوبصورتی کی تعریف اور جانچ پڑتال کے لئے ہر سال مس ورلڈ اور مس یونیورس کے مقابلے وقوع پذیر ہوتے ہیں اس مقابلے میں حصہ لینے کےلئے جوان دوشیزائیں کم ترین لباس میں ریمپ پر واک کرتی ہیں اور اپنے جسموں کی نمائش کچھ طریقے سے کرتی ہیں کہ جسم کا ہر حصہ واضح طور پر ججز کی توجہ اپنی طرف مرکوز کیے رکھتا ہے اور پھر مخصوص فگرز کی حامل ان لڑکیوں میں سے کسی ایک کو ایک سال کےلئے تاج پہنا دیا جاتا۔ مقابلہ ختم ہوتا ہے اور ویسا جسم اپنانے کی دوڑ پورے دنیا میں شروع ہو جاتی ہے۔

چونکہ دنیا میں امراء کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے ہے لوگ ضروریات زندگی سے آسائشات اور پر تعشیات زندگی کے چکروں میں رہتے ہیں۔ اس تعیشاتی زندگی کا سب سے زیادہ فائدہ اور نقصان خواتین کو ہی ہوا ہے۔ نقصان یہ ہوا کہ خواتین موٹاپے کا شکار ہونے لگی اور فائدہ یہ ہوا کہ پیسوں کی بدولت سکنی ( Skinny) اور نہایت عام شکل شباہت کی خواتین میں سیلکون کے ذریعے اپنے جسم کے خدوخال میں من چاہی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔مسئلہ ہے عام خواتین کا جہاں موٹاپا ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اور مشرق وسطی کے ممالک کی خواتین کی جسمانی بناوٹ باقی دنیا سے تقریبا مختلف ہے۔

خاص کر پاکستان اور بھارت کی صحت مند لڑکیوں کے لئے بڑا مسئلہ جیون ساتھی کا ہوتا ہے کہ ان کی جسمانی بناوٹ کو وہ قبول نہیں کر پا رہے ہوتے اور لمبے عرصے تے یہ لڑکیاں ذہنی کوفت سے گزرتی ہیں۔ خود کو سمارٹ کرنے اور جاذب نظر دکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتی ہیں اس کا تو حال وہ خود ہی بتا سکتی ہیں۔ میری ایک لڑکی سے بات ہوئی جس نے اپنے منگیتر کے کہنے پر خود سمارٹ کرنے کےلئے سرکہ تک پیا۔ یہ تو ایک مسئلہ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کپڑے پہنو وہ نہ پہنوں۔ پینٹ نہیں پہن سکتی۔ اونچی ہیل نہیں پہننی۔ میک اپ ایسا ہو کہ ڈبل چن نظر نہ آئے۔ اور کئی ایک مسائل۔

آخر کیوں ان بچیوں اور لڑکیوں کو صرف گوشت سمجھتا جاتا ہے۔ کیوں ان کے ساتھ ایک عام لڑکی کی طرح برتاؤ نہیں کیا جاتا؟ کیون کر ان کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے اور آخر کب تک یہ چلتا رہے گا۔۔ میڈیا کی عینک اتار کر دیکھیں اور کان لگا کر ان لڑکیوں کی دھڑکنیں سنیں۔ گھر کے کونے میں بیٹھی ان کی حسرتیں کا اندازہ لگا ئیں ان کو درد ناک پیغامات ملیں گے۔ اپنا رویہ کب بدلیں گے؟ کب ان کو گوشت کی مورت کے بجائی حساس انسان اور صنف نازک کب سمجھیں گے؟

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider