خواتین کا عالمی دن اور اماں عنایتاں چوہڑی کی معصومیت


(نوٹ: اس کہانی کے تمام کردار بشمول ان کے نام اور واقعات حقیقی ہیں)۔

خواتین کا عالمی دن ہے تو مجھے آج کے دن کی مناسبت سے اماں عنایتاں یاد آگئی ۔ جو میرے بچنے کی ایک مسلسل یاد ہے۔ ابا جی گاؤں چھوڑ کے شہر میں ملازم ہوگئے تھے۔ ڈرائیور تھے تو صاحب کی کوٹھی کے عقبی جانب جہاں بھینس اور گائے بندھی رہتی تھی و ہاں بنا ایک کمرے کاکوارٹر رہنے کومل گیا تھا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد تک تو امی گاؤں میں رہیں پر جب بڑا بھائی پیدا ہوا تو ابا جی کو لگا کہ بچوں کو شہر میں پالا تو ممکن ہے کہ پڑھ لکھ کے کوئی افسر بن جائیں۔ سو وہ امی کو لے کر اسی کوارٹر میں آگئے جس کے صحن میں بھینس بندھی رہتی تھی۔ ہر سال دو سال بعد بھینس یا گائے بدل جاتی ہمارے ابا اور امی کی گود بھی ہر دو ڈھائی سال بعد ہری ہوجاتی۔ ہم سات بہن بھائی اب جوان ہیں۔ بڑا بھائی بیاہا ہے۔ نوکری پیشہ، بہنیں تک پڑھ لکھ گئیں۔ مناسب سی نوکریاں لگ گئی ہیں۔ اب وہ غربت اور غریب الوطنی نہیں رہی۔

ان بھینسوں کا گوبر اٹھانے کے واسطے جو سالہا سال ہماری فیملی ممبرز رہی تھیں ایک بوڑھی عورت آیا کرتی تھی۔ اماں عنایتاں۔ میری ماں اسے اپنی ماں جیسا سمجھتی تھی۔ گاؤں دور تھا، فون تھا نہیں، بچے چھوٹے تھے، کہاں کس سے دل کے حال کہتی۔ سو اماں عنایتاں میری ماں کی رازدار تھی۔ دوست تھی اور ماں جیسی تھی۔ وہ ماں جیسی تھی مگر اس کے برتن علیحدہ تھے کمرے کے باہر بنے شیڈ کے اوپر ایک گلاس، ایک کپ، ایک پلیٹ اور ایک چنگیر رکھی رہتی۔ اماں عنایتاں آتی گوبر کا ڈھیر اکٹھا کرتی اور باہر محلے کے پار ٹرین کی پٹری سے دوسری طرف کوڑے کے ڈھیر پہ اپلے بنا کے آجاتی۔ میری امی اس دوران چائے بنا لیتی۔

اماں عنایتاں اپنے کام سے فارغ ہوکر خوشی خوشی میری ماں کے پاس آبیٹھتی شیڈ پہ سے کچ اٹھاتی اور چائے کی سرکیاں لیتے امی سے سرگوشیوں میں باتیں کرتی رہتی۔

ایک روز میں نے سکول سے واپس آکر شیڈ پہ سے گلاس اٹھا کر پانی پی لیا تو میری ماں نے مجھے خوب زور سے مارا اور کہا کہ ’چوہڑیا، اس گلاس وچوں اماں عنایتاں پانڑی پیندی اے تے اوہ چوہڑی اے‘ مجھے اس لفظ اور اس کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ پھر امی نے سمجھایا کہ وہ عیسائی ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ان کے بھانڈے پلید ہیں اور ہمارے پاک۔

سالوں گزر گئے ہیں۔ اب ہم اس سرونٹ کوارٹر میں نہیں رہتے۔ اماں عنایتاں زندہ ہے۔ اس کے تینوں بیٹے پچھلے چند سالوں میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرچکے ہیں۔ اماں عنایتاں پھر ہی زندہ ہے۔ شاید اب وہ اسی سال سے بھی زائد عمر کی ہوگی۔ اس کے حواس اور ہاتھ پاؤں سلامت ہیں۔ سو وہ مہینوں میں کبھی ایک آدھ بار ٹرین کی پٹری سے پار آباد عیسائیوں کی بستی سے ادھر ہمارے پوش رہائشی علاقے میں آنکلتی ہے۔ اسے دو عورتوں سے ملنا ہوتاہے۔ ایک کشور، جس کا میں نے صرف اماں عنایتاں سے نام سنا ہے۔ ایک میری ماں۔

میں پچھلے مہینے گھر پہ تھاجب اماں عنایتاں آئی۔ امی نے حسب عادت چائے بنائی اور اسی طرح باورچی خانے کے کسی کونے کھدرے سے ایک کپ نکال کے چائے اس میں ڈال دی۔ میں اب بڑا ہوگیا ہوں میری اب گھر پہ چلتی ہے سو میں نے اماں عنایتاں کی چائے اس کپ انڈیل کر اپنے کپ میں دی۔ میری ماں چپ رہی مگر نہایت غصے سے مجھے دیکھنے لگی۔ اماں عنایتاں نے مسکر ا کر کہا۔ ’کڑیئے مینوں چاء میرے ای کپ وچ دے‘

میں اونچی آواز میں بولا کہ اماں بندیاں وچ کوئی فرق نئیں۔ اماں عنایتاں کہنے لگی۔ ’نہی پتر، بندیاں وچ بوہت فرق اے۔ جیویں تیری ماں تے تیرے وچ بوہت فرق اے۔ ہیں تے توں اسے دا ای پتر۔ پر بڑا فرق اے۔

میری ماں اسے چائے پلا کر کچھ رقم کی امداد کردیتی ہے۔ میں اماں عنایتاں کو دروازے تک رخصت کرنے آیا تو اس نے مجھے گلے لگایا۔ گالوں کو چوم کر کہنے لگی۔
’پتر، توں پڑھ لکھ گیا ایں۔ پڑھائی چنگی شے اے۔ پر ماں نوں تنگ نہ کریا کر۔ اوہ تے وچاری ان پڑھ اے اونہوں کی پتہ؟

میں ہنس پڑا۔ اماں عنایتاں کتنی معصوم ہے کہ اسے خبر ہی نہیں۔ یہ چھوت چھات اور پاک پلید کا فرق ان پڑھوں کا نہیں پڑھے لکھوں کا بنایا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).