مجھے ایک دن کی ملکہ اور ایک رات کی دلہن نہیں بننا


مجھے اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ صبح اٹھتے ہی ایک سہیلی کا واٹس ایپ گروپ میں محنتی عورتوں کے بارے میں سلامتی کا پیغام یوم خواتین کے حوالے سے پڑھا۔ بہت عجیب محسوس ہوا۔ کون سی عورت ہے جو مشقت نہیں اٹھا رہی اور اس نظام ہستی کو چلانے میں تندہی سے اپنا حصہ نہیں ڈال رہی۔ گھر، دفتر، تعلیم کا حصول، گھریلو ملازمت، کاروبار کون سا میدان ہے جس میں عورت کام نہیں کررہی۔ میں نے اپنی بہو کو دیکھا آج 7 بجے ہی جاگ گئی اور گھریلو کام میں جُٹ گئی۔ میں پلنگ توڑ رہی تھی کیونکہ جہاں میں پڑھاتی ہوں وہیں پر میں سیڑھیوں سے گر کر گردن کے مہرے ہلا بیٹھی ہوں۔ میرے سامنے اس وقت صفائی والی ماسی کام کر رہی ہے۔ کل جمعہ ہے وہ چھٹی کرے گی کیونکہ گھر میں جمع شدہ اپنا میلا کپڑا دھوئے گی گھر بھر کی صفائی کرے گی۔ میاں بھی گھر ہوگا۔ اس کی خدمت کرے گی۔ یعنی چھٹی والے دن بھی چھٹی نہیں میں بھی ہر اتوار کو اپنے ذاتی کام سمیٹی ہوں۔ کام کام اور دوہرا کام۔ گھر کا کام اور نوکری دونوں سا تھ ساتھ۔ اور اگر دونوں میں سے صرف ایک کام بھی ہو تو بھی کام تو کام ہی ہے۔

کیا ابھی بھی مجھے اس ایک دن کو منانا چاہئے؟ کیا مجھے اسے کوئی اہمیت دینا ہے؟ کیا صرف ایک دن میرا ہے؟

ہاں میں یہ دن مناتی اگر سڑکیں میرے لئے محفوظ ہوتیں۔ مجھ پر باہر نکلنے پر آوازیں نہ کسی جاتیں۔ اگر مجھے باپ بھائی شوہر یا بیٹے کی ڈھال کی ضرورت نہ پڑتی ہوتی۔

ہم ایک ایسے جابر معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہم اپنے فیصلے کرنے کے لئے ابھی تک خود آزاد نہیں۔ یہ بھی ہمارے مرودں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے سوچنے کے انداز طے کریں۔ ہم اسی لئے پیدا ہوئی ہیں کہ وہ کہیں یا کریں جو ہمارے گھروں کے مرد چاہتے ہیں۔

مرد ہی طے کریں گے کہ ہم پاکباز ہیں یا نہیں۔ ہمارے بارے میں رائے قائم کرنے کا حق ابھی تک مردوں کو حاصل اور اُن کی رائے حتمی ہے۔ یہ بھی مرد طے کرتے ہیں کہ کون سی عورت عزت کے لائق ہے اور کونسی نہیں۔ اس درجہ بندی کا حق جب تک مردوں کے پاس ہے ،میں یہ دن کیوں مناﺅں؟ کس نے یہ حق دیا ہے کسی بھی مرد کو کہ وہ یہ طے کرے کہ ہمیں کب کہاں اور کیسے جی اٹھنا ہے اور مر جانا ہے۔ کب بولنا ہے، کب خاموش ہو جانا ہے؟ کب مسکرانا ہے اور کبھی نہیں رونا ہے۔ ہمارے ساتھ پیش آنے والے حادثات کی ذمہ داری کیا ہم خواتین پر سے ہٹا دی گئی ہے؟ کیا ہمیں غلامی سے نجات مل گئی ہے؟ کیا بچہ پیدا نہ کرنے کی صورت میں مردوں کو بھی قصور وار ماننے لگی ہے ساس اور سسرال؟ بیٹا یا بیٹی کی پیدائش کی ذمہ داری مرد پر اور خدا کی مرضی پر ڈالی جانے لگی ہے؟ کیا غیرت کے نام پر زانی مرد مار دیے گئے ہیں؟

کیا مردوں کے اندر کا فخر ٹوٹ گیا ہے کہ وہ کتنے کھلے ذہن کے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو فلم پر جانے دیتے ہیں۔ اور دفتر میں کام کرنے دیتے ہیں۔

کیا مردوں کے اندر خدائی کے بت ٹوٹ گئے ہیں؟ کیا روزگار سے واپس آ کر مردوں نے گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹانا شروح کردیا ہے۔ میں اس دن کا انتظار کر رہی ہوں جس دن میرا بھائی اور بیٹا مجھے آکر شاباش ہی دے دیں کہ تم اپنی داستان لکھ کر معاشرے کی آنکھیں کھول رہی ہو۔ کیا بیٹوں جتنی سرمایہ کاری بیٹیوں پر ماں باپ نے کرنا شروع کردی ہے۔ جب مرد ہمارے فیصلوں کا احترام کریں اور ہم پر حکمران بنے کی کوشش نہ کریں۔ میرے کردار کو اس کسوٹی پر نہ پرکھیں کہ میں کام سے گھر دیر سے کیوں آئی۔ میں شوہروں کی وسعت نظر کی آس میں ہوں کہ وہ کسی مرد کے ساتھ بیوی کی ہمکلامی کو ویسے ہی برداشت کریں جیسے بیوی برداشت کرتی ہے۔

جہیز کا مطالبہ یا آس بند ہو جائے۔ عورتوں کی صحت جسمانی روحانی اور ذہنی طور پر شاندار ہوجائے۔ عورت کو کسی کی منظوری یا نا منظوری سے آزادی مل جائے۔ عورت کو حسن کے معیا ر پر نہ پرکھا جائے۔ اس کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی ہے جو چاہت اور عزت کا مطالبہ کرتی ہے۔ جس دن عورت کے جسم اور روح دونوں کے مطالبے پورے ہوجائیں گے میں تب بھی یہ دن نہیں مناﺅں گی کیونکہ مجھے ایک خاص دن نہیں، برابری کا پورا سال چاہئے۔ مجھے ایک رات کی دلہن بننا قبول نہیں، مجھے زندگی بھر مسکرانے کا حق چاہیے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).