گیورنیکا ۔ لکیر اور رنگ سے جدوجہد


پیلو پکا سو ہسپانیہ میں پیدا ہوا۔ مصوری کی لگن نو عمری میں فرانس لے آئی یہیں فنون اور فلسفے کے بہترین دماغوں کی صحبت میں پکاسوکے فن اور بصیرت میں وہ نکھار اور اپج پیدا ہوئی کہ اسے بلاخوف تردید بیسویں صدی کا عظیم ترین مصور مانا گیا۔ اس نے مصوری کو تجریدیت اور کیوبزم سے متعارف کرایا۔

پکاسو نے زندگی بھر شوخی اور چلبلے پن کا روپ دھارے رکھا لیکن اس ظاہری پردے کے پیچھے ایک سنجیدہ مفکر، انسان دوست اور جمہوریت پسند انسان چھپا تھا۔

فرانس کے قہوہ خانوں اور اعلی طبقے کی پر آسائش محفلوں میں بھی پکاسو کا دل اپنے وطن ہسپانیہ میں اٹکا تھا، ہسپانیہ میں فسطائی طاقتوں نے جمہوریت پر شب خون مار کرسپین کے گلی کوچوں میں آگ اور لہو کا جو بھیانک کھیل کھیلا اس پر پکاسو تڑپ اٹھا۔ گورنیکا پر بمباری کے کچھ ہی دنوں بعد پیرس میں فنون عالیہ کے عالمی میلے کا آغاز ہوتا تھا۔ منتظمین نے پکاسو سے درخواست کی کہ اس میلے میں ہسپانوی پیویلین کے لیے ایک پینٹنگ تیار کر دے۔ گورنیکا کے تاریخی قصبے میں مصوم انسانوں پر ٹوٹنے والی قیامت سے پکاسو غم و غصے میں بھرا بیٹھا تھا۔ اس نے موقلم اٹھایا اور 26فٹ چوڑے دیواری کینوس پر ایسا زور دار فن پارہ تخلیق کیا جو مصوری کی حالیہ تاریخ میں عظیم ترین سیاسی تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس تصویر میں بظاہر سادہ ترین لکیروں کی مدد سے جنگ کی بربریت اور انسانی مصائب کو جیتی جاگتی شکل دی گئی ۔ اگرچہ گورنیکا نامی پینٹنگ جدید آرٹ میں تشدد کے حلاف زوردار احتجاج کی حیثیت رکھتی ہے لیکن تصویر میں استعمال ہونے والے علائم مثلاً روتی ہوئی عورت، گھوڑا اور بھینسا ایک طویل عرصے سے پکاسو کا مستقل موضوع تھے لیکن پکاسو نے کمال ہنر مندی سے انہیں ایک ہی پینٹنگ میں سمو دیا۔ نقادان فن کا پکاسو نے محض گھوڑے کے ایک سر میں اتنی اذیت کھائی ہے جس کے لیے روایتی مصور مصلوب یسوع مسیح کا پورا استعارہ استعمال کرتے تھے۔ کٹی پھٹی زبانیں ابلتی ہوئی آنکھیں ، مڑے تڑے پاﺅں اور انگلیاں اور اذیت کی آخری حد پر مڑی ہوئی گردنیں شاید انسانی آلام کی یہ تصویر دیکھنے والوں کے لیے جذباتی طور پر تباہ کن ہو جاتی لیکن فن کا منصب جذبے کو قابل فہم اور قابل برداشت بنانا ہے پکاسو نے یہ کام اس پینٹنگ کی بظاہر ٹوٹی پھوٹی مگر واضح ترتیب سے لیا ہے۔ یہاں انسان ، جانور، عمارتیں غرض تہذیب کی سب نشانیاں تباہ ہو چکی ہیں مگر کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی، مصوری کی روایت میں جنگ پر جو تصویر کشی کی جاتی تھی اس میں گھوڑوں کے تنے ہوئے پٹھے ، سواروں کے چمکتے ہوئے خود اٹھی ہوئی تلواریں غرض کہ جنگ کو جلال اور شکوہ کا ایک استعارہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ اس پینٹنگ میں جنگ کے حوالے سے مصوری کی روایت سے ایک واضح انحراف موجود تھا یہاں جنگی وقار کی بجائے انسانی الم اور تہذیب کی بربادی کا نوحہ تھا۔ زخمی گھوڑا جمہوریت کی علامت، چیختی ہوئی عورت غمزدہ اور تباہ حال فرد ہے۔ فسطائی جنرل فرانکو ایک منہ زور بھینسے کی صورت میں چیختی ہوئی عورت کے عین اوپر پھنکار رہا ہے۔ تلوار ٹوٹ چکی ہے مگر پھول اور فاختہ ابھی سلامت ہیں کیونکہ جبر کے دن گنے چنے ہوتے ہیں اور انسانی امکان زندہ رہتا ہے۔ جدیدیت کا چراغ ایک بلب کی صورت تصویر کے بالائی حصے میں روشنی ہے۔ جمہوریت کی علامت گھوڑے کا جسم اخبار کی متوازی سطروں کی صورت میں ابھارا گیا ہے اس سے جدید دنیا کی صورت گری میں خبر اور فکر کے ابلاغ کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود ہے۔ اس وسیع و عریض پینٹنگ کے لیے پکاسو نے محض تین رنگ استعمال کیے ہیں۔ سیاہ، سفید اور سرمئی۔ یہ تینوں رنگ سوگ ، احتجاج اور ردعمل کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور تصویر کے عین مرکز میں اخبار کے سیاہ و سفید صفحات کی موجودگی اس واقعے اور کیفیت کے عارضی پن کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔

تصویر کا مجموعی تاثر مڑا تڑا ہے۔ اب جنگوں کا تصور بدل رہا تھا۔ یہ پیرس کمیون کے دن نہیں تھے کہ گلیوں میں مورچہ بندی کر کے نظریاتی شجاعت دکھائی جائے یہاں تو آسمان سے بارود کی بارش برس رہی تھی جو انسانیت کو سرے سے ملیامیٹ کر رہی تھی۔ تصویر میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی ہر علامت کا چہرہ آسمان کی طرف ہے۔ ہاتھ ہوا میں اٹھے ہوئے ہیں، بے بسی اور اذیت ایک ایک خط سے ٹپک رہی ہے۔ جنگ اب عظمت اور بہادری نہیں تباہی اور بربریت کا استعارہ بنے گی۔ جدید مصوری میں جنگ سے نفرت اور امن کی پکار اسی پینٹنگ سے شروع ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).