کیا مرد واقعی عورت کےلئے اتنا خطرناک ہے ؟


عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر بہت سی تحاریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ زیادہ تر تحریروں میں ہمارے معاشرے کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ جس میں عورتیں خود کو کافی حد تک غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور شاید ایسا ہے بھی اور اس کی وجہ مردوں کا وہ رویہ ہے جو وہ خواتین کے ساتھ روا رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس رویہ کی بنیاد صرف جہالت ہے۔ جہالت کا شکار ضروری نہیں کہ ان پڑھ بندہ ہو جناب وسعت اللہ خان صاحب نے بہت خوبصورت بات لکھی تھی کہ جاہل ہونے کے لئے پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس طرح علم کسی کی میراث نہیں ہے اسی طرح جہالت بھی کسی کی میراث نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو جہالت کا ثبوت دے سکتا ہے۔ مگر ایک منٹ کے لئے رک کر ذرا سوجئے تو دو، تین سوالات ضرور اٹھتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا معاشرہ مکمل طور پر جہالت کا شکار ہوگیا ہے اور کسی ماں بیٹی کی عزت اب محفوظ نہیں رہی ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا صرف عورتیں ہی اس معاشرے میں ظلم و زیادتی کا شکار ہیں؟ اور تیسرا اور آخری سوال کہ کیا عورتوں کے ساتھ ہر ہونے والے ظلم کے پیچھے صرف اور صرف مرد کا ہاتھ ہوتا ہے؟

میرا ماننا ہے کہ ہر لکھنے والے کے الفاظ قاری کی امانت ہیں اور لکھنے والا جانب دار ہو کر اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ لہٰذا قلم کار کو چاہیئے کہ وہ حق کی بات لکھے چاہے اس کے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو۔ میں خود عورت کے حقوق کے لئے لکھ چکا ہوں جہاں جہاں مردوں کی زیادتی نظرآتی ہے وہاں ان کا محاسبہ کیا جانا واقعی بے حد ضروری ہے لیکن اگر قلم کار کی آنکھ انصاف سے کام لے تو وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکتا ہے اگر دیکھنا چاہے۔

اب آتے ہیں پہلے سوال کی طرف کہ کیا واقعی معاشرہ اس حد تک زوال پذیر ہوگیا ہے کہ عورت کا وجود صرف سامان لذت بن کے رہ گیا ہے؟ ذرا ارد گرد نظر دوڑائیں اور معاشرہ کے اسی مرد کو عورت کا احترام بھی کرتے دیکھیں۔ بسوں میں سیٹ نہ ہونے پر عورت کے لئے اپنی جگہ چھوڑدینے والے بھی مرد ہیں۔ کسی بائیک پر ایک مرد کے ساتھ عورت ہو اور پیٹرول ختم ہوجائے یا بائیک میں کوئی مسئلہ ہوجائے تو یہی مرد حضرات اپنی بائیکس روک کر ان کا مسئلہ حل کرتے نظر آتے ہیں۔ بہت رش کی صورت میں گاڑی پھنس جائے تو جس گاڑی یا بائیک پر عورت نظر آئے تو اسے راستہ بھی یہی مرد حضرات دیتے نظر آتے ہیں۔ دفاتر یا تعلیمی اداروں میں جہاں خواتین کو مدد درکار ہو تو یہی مرد حضرات ان کی مدد کرتے نظر آتے ہیں اور ہر جگہ ضروری نہیں ہوتا کہ مدد کسی مطلب کے لئے کی جاتی ہو۔ بہت سے مرد حضرات کے دماغ میں یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ اگر اس کی جگہ میری بہن یا بیوی ہوتی اور اسے مدد کی ضرورت ہوتی تو کیا کرتی؟

کسی جگہ پر بھاری سامان کے ساتھ موجود عورت کی مدد، مرد کے ہاتھوں اس کا سامان گاڑی تک ڈھونے کا نظارہ کیا کسی ذہنی عیاشی کا منظر پیش کرتا ہے یا صرف انسانی ہمدردی کا؟

دوسرا سوال یہ کہ کیا صرف عورتیں ہی ظلم و زیادتی کا شکار ہیں۔ کسی غریب سے پوچھیں جسے کوئی پوچھنے والا نہیں جس کا حق کوئی طاقتور امیر کھا گیا۔ کسی بے روزگار سے پوچھیں جس کا حق کھانے والا کوئی سفارشی یا پیسے والا تھا۔ کسی بیمار سے پوچھیں جسے ہسپتال سے دوا کے بجائے صرف چھڑکیاں اور دھکے ملتے ہیں۔ کسی بوڑھے سے پوچھیں جسے اپنا حق پینشن لینے کے لئے بنک کے سامنے دھوپ میں اپنا بوڑھا جسم تپانا پڑتا ہے۔ اس مزدور سے پوچھیں جو اپنے جسم کو کڑی دھوب میں تندور کرتا ہے تو اس کے بچوں کی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے۔ نا انصافی کہاں نہیں ہے؟ مہذب معاشرے کہ جنہیں انسانی حقوق کا علمبردار کہا جاتا ہے کیا وہاں عورتوں کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ کیا جس طرح یہاں عورت کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی آزادی کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے کیا فرانس کی مسلم عورتوں کو اسکارف پہننے کی آزادی نہیں ہونی چاہئے پھر کیوں ان سے زبردستی اسکارف اتروایا جاتا ہے اور یہاں عورتوں کے حقوق پر بات کرنے والے اس پر خاموش رہتے ہیں؟

اب آتے ہیں تیسرے اور آخری سوال یعنی کیا عورت کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کے پیچھے صرف مرد ہوتا ہے؟ کیا ساس بہو کے جھگڑے مرد ترتیب دیتا ہے؟ کیا ساس بہو کی طرح آپ نے کبھی سسر اور داماد کے جھگڑے سنے ہیں؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ایک کنوارا مرد جو شادی سے پہلے ڈپریشن کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتا شادی کے بعد اس کا مستقل شکار ہوجاتا ہے؟ کہیں ساس نے بہو کا جینا دوبھر کیا ہوتا ہے تو کہیں آنے والی بہو کو ساس اور نند کا وجود زہر لگتا ہے۔ اور اس چکی میں پسنے والا مرد ہی ہوتا ہے۔ اگر بیوی کا ساتھ دے تو زن مرید کہلاتا ہے اور اگر ماں اور بہنوں کا ساتھ دے کہا جاتا ہے شادی کی ہی کیوں تھی اگر ماں کا بیٹا اور بہن کا بھائی ہی بنے رہنا تھا تو۔ جسے جلایا جاتا ہے وہ بھی عورت ہوتی ہے اور جو جلاتی ہے وہ بھی عورت۔ جو پٹنے والی ہوتی ہے وہ بھی عورت ہوتی ہے اور پیٹنے والی بھی عورت۔ اکثر یہ کام مرد کے ہاتھوں سے بھی کروایا جاتا ہے مگر محرک عورت یعنی ساس ہی ہوتی ہے جو بیٹے کو اکسا کر بہو کو پٹواتی ہے۔ یہاں یقینی طور پر یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھ رہا ہوگا کہ وہ مرد کیوں اپنی ماں کی باتوں میں آکر بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو میں بھی اس حق میں ہوں کہ مرد کو زیب ہی نہیں دیتا کہ بیوی پر ہاتھ اٹھائے مگر نا زیبا مردوں سے دنیا تو بھری پڑی ہے۔ اور محرک بھی تو عورت ہے جس کی وجہ سے یہ جھگڑا مار پیٹ تک پہنچتا ہے۔

یہاں صرف ایک سوال میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے چھوڑ رہا ہوں کہ مرد حضرات تو کئی مقامات پر عورتوں کے حقوق کی بات کر چکے ہیں۔ تحاریر لکھ چکےہیں۔ تقاریر کر چکے ہیں لیکن کیا کسی عورت نے اب تک عورت کے ہاتھوں عورت پر ظلم کی کہانی بیان کی ہے اگر کی ہے تو برائے مہربانی مجھے بھی ارسال کردیں۔ ورنہ خواتین کا یہ نقطہ نظر کہ عورت ظلم کا شکار ہے اسی طرح کا بیان ہے جیسے سیاستدان دیتے ہیں کہ ملک کو آمریت سے خطرہ ہے جب کہ ان کا اپنا وجود کہاں کہاں اور کتنا خطرہ بن جاتا ہے اس کا کوئی بیان نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).