جو صورت نظر آئی !


اچھا لکھنے والے ایسے ناپید ہوتے جا رہے ہیں کہ اب اگر کسی اچھی کتاب یا صاحبِ کتاب کا علم ہوتا ہے کہ معیاری ہے تو ہر دو سے دور بھاگ جاتی ہوں۔

اچھی کتاب پڑھنے میں دنوں لگا دیتی ہوں بلکہ پڑھتی ہی نہیں۔ اس لئے کہ پڑھ لی تو پھر جو ایک تصور ہے کہ کوئی اچھی چیز ابھی پڑھنے والی رہ گئی ہے وہ بھی نہیں رہ جائے گا۔ صاحبِ کتاب سے بھاگنے کی وجوہات کی فہرست طویل ہے پھر کبھی تفصیل سے بیان کروں گی۔

خاکہ لکھنا، مجھے تو دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے۔ خاص طور پہ جب یہ خاکے ان شخصیات کے ہوں جو قومی اور سیاسی سطح پہ جانی پہچانی جاتی ہوں۔ مختار مسعود صاحب کے بعد کسی کے لکھے خاکے نہ بھائے۔ ایک دو مزاح نگاروں نے ’خاکہ اڑانے‘ کی اتنی بھدی کوششیں کی ہیں کہ اب اگر معلوم ہو جائے کہ فلاں صاحب نے خاکہ نگاری کی ہے تو پوچھتی تک نہیں کہ کتاب کا نام کیا ہے۔

ان حالات میں چند رو ز پہلے ڈاک سے ایک کتاب موصول ہوئی، ’جو صورت نظر آ ئی‘ پہلے تو ڈر کے لفافے میں واپس رکھ دی کہ یا اللہ! پھر سے جھوٹ بولنا پڑے گا۔ جن صاحب نے بھی لکھی ہو گی وہ رائے لازمی مانگیں گے۔ سچ کون سنتا ہے اور جھوٹ کب تک بولوں لیکن پھر مصنف کا نام نظر آ یا تو کچھ جان میں جان آ ئی۔ فاروق عادل صاحب کی ایک دو تحریریں پڑھ چکی تھی۔ معقول لکھنے والے ہیں۔ پھر بھی خاکہ نگاری کے لئے کسی پہ بھروسہ کرنا خاصے دل گردے کا کام تھا۔

کراچی کا سفر درپیش تھا۔ ہوائی جہاز میں اگر ہم سفر خاتون ہوں تو ان سے اپنی نجی زندگی کے راز محفوظ رکھنا اور ان کے رازوں سے خود محفوظ رہنا ایک ناممکن کام ہے اس کے لئے بہترین حل یہ ہے کہ ایک کتاب ساتھ رکھ لی جائے۔ حاشا و کلا ، صرف اس مقصد کے لئے یہ کتاب ساتھ رکھ لی۔

قسمت سے ساتھ ایک چومغزے قسم کے صاحب بیٹھے تھے۔ پس فوراَ چہرے پہ خشونت اور رعونت طاری کر کے کتاب کھول لی۔ اس کے بعد کب کتاب ختم ہوئی ، کب جہاز رکا ، کون لینے آ یا تھا ، کب ہوٹل پہنچی اور کیسے کمرہ لیا ، کچھ خاص یاد نہیں۔ ہوش تب آ یا جب رات کے ایک بجے کتاب ختم ہوئی۔

کتاب میں کل پینتیس خاکے ہیں۔ سب کے سب ، جانی بوجھی شخصیات کے۔ لیکن مصنف نے انہیں اپنی عینک سے دیکھا اور اپنے زاویے سے ہمیں دکھا یا۔ پہلا خاکہ قائدِ اعظم کا ہے۔ آگے بڑھتے جائیے، مرزا جواد بیگ، میاں طفیل، پیر پگارا، اصغر خان، پروفیسر غفور، نصرت بھٹو، طیب اردوان، بے نظیر بھٹو اور دیگر مشاہیر کا ذکر کرتے کراتے جب، مصنف شیخ رشید اور آصف علی زرداری تک آئے تو میں حیران رہ گئی۔

اپنے ممدوح کا ذکر انہوں نے یہاں بھی ایسے کمال سے کیا کہ میں ان کی مشاقی کی قائل ہو گئی۔ فی زمانہ، جب بد زبانی اور ہجو گوئی صفات سمجھی جاتی ہیں، فاروق صاحب نے نہائت شائستگی سے ان دونوں شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر کیا ہے۔ شیخ صاحب کی حیات باکمال کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔

 ” غیر ملکی سفر کے دوران ایک بار انہیں یلیو پیجز کی ضرورت پیش آ گئی، شیخ صاحب اس مسافرت میں رقم خرچ کر بیٹھتے تو مشکل ہو جاتی۔

’ تو پھر میں کیا کروں ؟‘ انہوں نے سوچا۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ کسی بڑے بزنس ہاؤس کی لفٹ میں سوار ہوئے تو منتظمین کی سلیقہ شعاری پہ انہیں پیار آ گیا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کی رہنمائی کرنے والی یہ کتاب لفٹ میں موجود تھی، ارد گرد کوئی نہ تھا ، لٰہذا موقع غنیمت جان کر شیخ صاحب نے مطلوبہ صفحات پھاڑ کر جیب میں ڈال لئے۔ سیاست کی دنیا میں بھی شیخ صاحب اسی اصول کے قائل ہیں۔ “

 اس نمونہ کلام ، کے بعد میرا خیال ہے مزید کسی توصیف کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ کتاب کے کل 259 صفحات ہیں۔ چھاپنے والے دوست پبلی کیشنز ہیں۔ امید تو یہ ہی ہے کہ ہر اچھے بک سٹال پہ دستیاب ہو گی لیکن اگر نہ ملے تو مصنف سے دستخط شدہ کاپی حاصل کرنے کا شوق دکھا کر مفت حاصل کرنے کا تیر بہدف نسخہ تو موجود ہی ہے۔ پڑھ کر دعائیں دیں گے، ضرور پڑھئیے، دوستوں کو بھی پڑھائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).