اعتزاز احسن کی تقریر اور پیپلز پارٹی کا اندرونی انتشار


سینیٹر اعتزاز احسن نے اگرچہ آج اپنی تقریر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور حکمران مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنایا ہے لیکن ان کی تقریر پیپلز پارٹی میں آصف زرداری کے بیانیہ اور حکمت عملی کی بالواسطہ حمایت و تائد کا اعلان ہے۔ سینیٹ میں الوداعی تقریر کرتے ہوئے سیاست کے گرم و سرد چشیدہ اعتزاز احسن نے اپنا فوکس حکمران جماعت کے تضادات کو واضح کرنے پر مبذول رکھا اور اداروں کے تحفظ میں گرمجوشی دکھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے داخلی انتشار پر پردہ ڈالنے کے لئے گزشتہ روز سینیٹ چیئرمین رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کی طرف سے عدلیہ کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دینے کی بھی حمایت کی لیکن اعتزاز احسن کی تمام مہارت اور فن تقریر میں دسترس کے باوجود اس حقیقت کی پردہ پوشی ممکن نہیں ہے کہ اعتزاز دراصل پیپلز پارٹی کی روح کے برعکس زرداری کی اسٹیبلشمنٹ نواز حکمت عملی کی تائید کررہے تھے۔

نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے عدلیہ مخالف جو مؤقف اختیار کیا ہے، اس پر کئی لحاظ سے بات کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں نواز شریف کا کردار اور خاص طور سے یوسف رضا گیلانی کی عدالتی حکم کے تحت برطرفی کے حوالے سے ان کا جو مؤقف اور رویہ رہا، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن جب اعتزاز احسن نواز شریف کے عدلیہ مخالف بیانات کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ان کی نکتہ چینی فوجی آمریت کا سبب بن سکتی ہے تو ان کی دلیل بے وزن ہوجاتی ہے۔ ایک جمہوریت پسند کیا ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہ کر پھونک پھونک کر قدم اٹھائے گا کہ اگر اس نے کچھ غلط کہہ یا کردیا تو فوج کو ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اعتزاز احسن سے زیادہ اس بات سے کوئی آگاہ نہیں ہو سکتا کہ فوج کو سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے طرز عمل کی وجہ سے سیاست کرنے اوران معاملات میں مداخلت کرنے کا موقع ملتا ہے جو اس کا شعبہ نہیں ہیں۔ آج اگر فوج اور عدالتوں کے خلاف نواز شریف کا بیانیہ عوامی قبولیت حاصل کررہا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ نواز شریف کے ماضی کو بھول چکے ہیں یا اداروں کو نقصان پہنچانے کی حمایت کرتے ہیں بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ عوام اب ملک میں سیاست کے اس پرانے کھیل سے عاجز آچکے ہیں جو فوجی ادارے من چاہے سیاست دانوں کے تعاون سے مل کر کھیلنے اور فیصلوں پر اپنی دسترس بحال رکھنے کے لئے کھیلتے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑنے والی اور اس لڑائی سے نقصان اٹھانے والی پیپلز پارٹی کے معوان چیئرمین آصف زرداری اگر اب اسی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی سے دوبارہ بادشاہ گر بننا چاہتے ہیں تو محض اس وجہ سے فوج کا سیاسی کردار اچھا نہیں ہو جاتا۔ اعتزاز احسن کو بھی علم ہونا چاہئے کہ زرداری اس وقت جو سیاست کررہے ہیں ، اس سے انہیں تو شاید کوئی فائدہ حاصل ہوجائے لیکن پیپلز پارٹی اپنے تاریخی کردار سے محروم ہو جائے گی۔ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کی تقریریں اسی طرف ایک اشارہ تھیں۔ اعتزاز احسن اب نواز شریف کو فوج مخالف اور پیپلز پارٹی کو فوج کا حامی اور دوست بنا کر سیاست میں فوج کے کردار کو درست قرار نہیں دے سکتے۔

اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی میں آصف زرداری کی حکمت عملی کی وجہ سے جو فکری بحران اور کارکن کی سطح پر بے چینی موجود ہے ، اس میں مسلسل اضافہ ہو اور پارٹی نی صرف اپنے قومی تشخص سے ہی محروم نہ ہوجائے بلکہ سندھ میں بھی اس کی گرفت کمزور ہونا شروع ہوجائے۔ اعتزاز احسن سے بہتر کون اس بات کو جان سکتا ہے کہ آخر پیپلز پارٹی کب تک ذوالفقار بھٹو کا نام اور بے نظیر کی شہادت کو نعرہ بناکر لوگوں کے ووٹ حاصل کرتی رہے گی۔ آصف زرداری جس طرح پیپلز پارٹی کے بانی کا نام بیچ کر اسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے کی کوشش کررہے ہیں جو بھٹو کی پھانسی کا سبب بنی تھی، اس کی اصلیت اب ہر عام وخاص پر عیاں ہے۔ اعتزاز احسن نے اپنی تقریر کے ذریعے نواز شریف کی سیاست کو تو خاص نقصان نہیں پہنچایا لیکن پیپلز پارٹی کے فکری بحران اور داخلی انتشار کو مزید واضح کردیا ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی ساکھ کے بارے میں نئے سوال سامنے آئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کے مقابلے میں اعتزاز احسن جیسے دانشور اور سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاست دان کو آصف زرداری کی حمایت میں دھؤاں دار تقریر کرنا پڑی ہے۔ بہتر ہوتا کہ اعتزاز سینیٹ کے فلور پر حکمران جماعت پر نکتہ چینئ کے نام پر فوج اور سپریم کورٹ کے سیاسی کردار پر گرم جوشی دکھانے کی بجائے، اپنے ہی ساتھیوں کے اصولی مؤقف کی حمایت کرتے اور اس بات کو سامنے لانے کی کوشش کرتے کہ ملک میں جمہوری تسلسل اور سیاسی پارٹیوں کی قوت کے لئے اصولی معاملات پر ایک دوسرے سے اصولی اختلاف رکھنے اور بعض اعلیٰ اصولوں کے لئے تعاون کرنے سے ہی اس نظام کو قابل اعتبار اور طاقت ور بنایا جا سکتا ہے۔

نواز شریف نے کل رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کے طور پر دوبارہ منتخب کروانے کی تجویز دی تھی۔ یہ ایک خوش آئیند تجویز تھی۔ اس پر عمل کرنے سے ملک کے کشیدہ ماحول میں توازن پیدا کیا جاسکتا تھا اور سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے بعد تعاون اور متوازن سیاسی سوچ کو فروغ دینے کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا تھا۔ لیکن آصف زرداری نے اس تجویز کو مسترد کر کے مولانا فضل الرحمان جیسے سیاسی شاطر سے سیاسی تعاون کی شرائط طے کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس سے ملک میں جمہوریت کے فروغ میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ پیپلز پارٹی پر اس وقت ہر صوبے میں سینیٹ انتخابات کے موقع پر سیاسی جوڑ توڑ کرنے اور دوسری پارٹیوں کے ووٹ توڑ کر اپنے سینیٹرز منتخب کروانے کی کوششیں کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے تو خیبر پختون خوا کے ارکان اسمبلی کو ووٹ کی قیمت کے طور پر پانچ کروڑ روپے فی کس دینے کا الزام بھی لگایا ہے۔ اس صورت حال میں اعتزاز احسن کو اس حوالے سے سوچنے اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لئے جوڑ توڑ کی سیاست کی مخالفت میں آواز اٹھا کر اپنے اصول پرست ساتھی رضا ربانی کے لئے آواز اٹھانی چاہئے تھی۔ یا اس سوال کا جواب دینا چاہئے تھا کہ کیا زرداری صرف نواز شریف کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے ہی ایک قد آور سینیٹر کو ایک جائز پوزیشن دینے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ رویہ شرمناک ہے اور اسے مسترد ہونا چاہئے۔

عدالتوں اور چیف جسٹس پر نکتہ چینی کے حوالے سے اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ عدالت نرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عدالت اصل توہین کرنے والوں کو طلب کرنے سے گھبرا رہی ہے اور نواز شریف سے براہ راست جواب طلب کرنے کی بجائے نہال ہاشمی جیسے دوسرے درجے کے لیڈروں کو دوبارہ توہین عدالت کا نوٹس دے کر اپنی اتھارٹی قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کوئی بھی عدالت توہین عدالت پر سزائیں دے کر اپنا وقار بحال نہیں کرسکتی۔ اس کا وقار تو انصاف کی فراہمی کے ذریعے ہی بحال ہو سکتا ہے۔ لیکن سیاسی مقدمات میں الجھ کر اور توہین عدالت کے نوٹس دے کر میڈیا کی زینیت بنے رہنے سے مسلسل خبروں میں جگہ تو بنائی جاسکتی ہے لیکن اس سے سپریم کورٹ کے ادارے کو ایک خود مختار اور طاقتور ادارے کے طور پر سامنے نہیں لایا جاسکتا۔ اندازے اور طریقہ کار کی یہی غلطی اس وقت سپریم کورٹ کے بارے میں سوالات کو جنم دے رہی ہے اور نواز شریف کو مقبول بنارہی ہے۔

اعتزاز احسن کو سوچنا چاہئے کہ اگر نواز شریف ’مجھے کیوں نکالا‘ جیسے مضحکہ خیز بیانیہ پر عوام میں مقبولیت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ اس وقت نواز شریف کے لئے عوامی ہمدردیوں کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ فوج ان پر ہاتھ ڈالنے یا جمہوریت کو براہ راست چیلنج کرنے کی کوشش کرے گی۔ البتہ اصف زرادری اور عمران خان جو سیاست کررہے ہیں، اس کے نتیجہ میں سیاسی قوتیں کمزور ہوں گی اور مرکز اور صوبوں میں کمزور مخلوط حکومتیں خفیہ ہاتھوں کو بدستور کھل کھیلنے کا موقع فراہم کریں گی۔ اعتزاز احسن اگر اس سادہ سے منظر نامہ کو سمجھنے سے انکار کرتے ہیں تو ان کے پاس مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مخالفت کے علاوہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali