!چیئرمین سینٹ کیلئے ”اصولی“ بنیادوں پر جوڑ توڑ


جمہوریت سے نفرت انقلابِ روس سے قبل محض کمیونسٹوں کا منشور ہوا کرتی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ غریب عوام کو دھوکا دینے کے لئے اس دنیا کے طاقت ور خود کو مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ان جماعتوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لئے انتخابات ہوتے ہیں۔ ان انتخابات میں ہر شہری حصہ لینے کا حقدار ہوتا ہے لہٰذا جو حکومت بھی برسرِاقتدار آتی ہے نظر بظاہر ”خلقِ خدا“ کی مرضی سے ”منتخب“ ہوتی ہے۔

یہ حکومت مگر سرمایہ داروں اور دیگر حکمران طبقات کے مفادات کی محافظ اور سہولت کار ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی جگہ لہٰذا ”پرولتاری آمریت“ یعنی مزدوروں کی حکومت درکار ہے اور یہ حکومت صرف ”پیشہ ور انقلابیوں“ پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی ہی قائم کر سکتی ہے۔

One Party Rule نے لیکن سٹالن کے دور سے سوویت یونین میں جو جلوے دکھائے اس نے ”پرولتاری آمریت“ کی منافقت عیاں کر دی۔ سب کے لئے مساوی حقوق دینے کا دعوے دارمعاشرہ بھی حکمران اور محکوم عوام میں تقسیم رہا جہاں اپنے حقوق کے لئے فریاد کرنے کی گنجائش بھی موجود نہیں تھی۔

”سرمایہ دارانہ جمہوریت“ اور ”پرولتاری آمریت“ کے درمیان طویل سردجنگ کے بعد بالآخر سوویت یونین تحلیل ہو گیا۔ دیوار برلن ڈھے گئی۔ اُمید بنی کہ اب تمام دُنیا میں تحریر، تقریر اور ہر طرح کے خیالات کے اظہار کے ذریعے ایک نیا سیاسی نظام تشکیل دیا جائے گا، یہ نظام ہر شہری کو فقط اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے امکانات فراہم کرے گا، لامتناہی امکانات کی موجودگی ملکوں کو خوشحال اور جدید ترین بناتے ہوئے دنیا کو ایک محفوظ اور پرامن گاﺅں بنا دے گی، سرحدیں اس Global Village میں محض علامتوں کی صورت نظر آیا کریں گی، ”قومی ریاست“ عالمی طور پر وضع ہوئے نظام کے تابع ہو جائے گی، کسی ایک ملک میں لوگوں کو روزگاریا اظہار کے مواقع نصیب نہ ہوئے تو وہ بآسانی کسی دوسرے ملک منتقل ہوکر اپنی صلاحیتوں کو آزمانا شروع ہو جائیں گے۔

دیوار برلن کے بعد جس نظام کا وعدہ ہوا اسے Washington Consensus کا نام دیا گیا۔ ”نیو لبرل نظام“۔ منڈی یعنی مارکیٹ کے تقاضے پورا کرتا ہوا نظام۔ 1990کی دہائی سے 2010کی دہائی کے اختتام تک اس نظام کے چرچے رہے۔ 2016کے آغاز کے ساتھ ہی لیکن برطانیہ میں یورپی یونین کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ Brexit کے نام سے ایک مہم چلی جس نے ”قومی ریاست“ اور وہاں کے ”اصل“ باشندوں کی مشکلات کا ذکر کرنا شروع کر دیا۔ طے یہ ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے بالآخر پوری دنیا کو چند اجارہ دار کمپنیوں یعنی Multi-national Corporations (MNCs) کا غلام بنادیا ہے۔ Apple اور میکڈونلڈ جیسے برانڈ ہیں جو دنیا کے ہر ملک کو اس کی تاریخی اور ثقافتی شناخت سے محروم کررہے ہیں۔

سرمایہ دار اب اپنے وطن میں سرمایہ کاری نہیں کرتا، کارخانے لگانے کے لئے ایسا ملک ڈھونڈتا ہے جہاں مزدور ٹریڈ یونین بنائے بغیر نسبتاً کم اُجرت پر سر جھکائے کام کرنے کو تیار رہتا ہے۔

MNCs بیرون ملک سرمایہ کاری سے اپنے منافعوں میں ہوشربا اضافہ کررہی ہیں مگر برطانیہ میں صدیوں سے لگی ملیں بند ہو چکی ہیں، ان کی جگہ پلازے تعمیر ہورہے ہیں۔ ہوٹل وریستوران بن رہے ہیں۔ ان پلازوں کی تعمیر اور ریستورانوں میں کام کرنے کے لئے نسبتاً پسماندہ یورپی ممالک سے نوجوان منہ اٹھائے یورپی یونین کی عطا کردہ سفری سہولتوں کی وجہ سے برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ انتقال آبادی نہ صرف ”مقامی“ لوگوں کا روزگار چھینتا ہے بلکہ بے تحاشہ تارکینِ وطن کی موجودگی برطانیہ کی تاریخی شناخت بھی ختم کر رہی ہے۔

یورپی یونین سے لہٰذا Brexit کے نام پر الگ ہونے کے لئے ریفرنڈم ہوا۔ برطانیہ کی سفید فام اکثریت ڈٹ کر اس کی حمایت میں کھڑ ی ہوگئی۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا۔ وہاں کے مسائل مگر اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔

Brexit کے بعد امریکہ میں ٹرمپ جیسا مضحکہ خیز دِکھتا سرمایہ دار نمودار ہوا۔ اس نے بھی اسلام اور تارکینِ وطن کے خلاف سفید فام امریکی اکثریت کے دلوں میں موجود جذبات کو بھڑکاتے ہوئے America First کا نعرہ بلند کیا تو حیران کن اندازمیں وائٹ ہاﺅس پہنچ گیا۔ امریکی معاشرے میں ہیجان مگر اب بھی اپنی جگہ پوری شدت سے موجود ہے۔

افراتفری، آپا دھاپی اور ہیجان ہمارے ہاں بھی 2008ءسے مسلسل جاری ہے۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ہمارے ہاں جو ”پارلیمانی نظام“ متعارف ہوا تھا وہ لوگوں کی اکثریت کو ہرگز مطمئن نہیں کر پایا ہے۔ مسلسل سیاپا فروشی ہمارا مقدر بنی نظر آرہی ہے۔ ”چور اور لٹیرے“ سیاست دانوں سے نفرت گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ ان سے نجات کے لئے اب مسیحاﺅں کا انتظار ہو رہا ہے۔ 1958ءسے اس ملک میں ”مسیحا“ رات گئے ریڈیو یا ٹیلی وژن پرنمودار ہوکر ”میرے عزیز ہم وطنو“ کہنے کے بعد دلوں کو مطمئن کر دیا کرتے تھے۔ اب کے بار ”وہاں“ سے کوئی آنے کو تیار نہیں ہو رہا۔

عدالت عظمیٰ لیکن متحرک ہوچکی ہے، اس کی معاونت کو NABکا ادارہ بھی دوبارہ سانس لیتا محسوس ہورہا ہے۔ ”فائلیں“ ہر مبینہ ”چور اور لٹیرے“ سیاست دان کے بارے میں ”تیار“ ہیں۔ صفائی ستھرائی کا عمل جاری ہے۔ اسے چلاتے ہوئے بھی لیکن ہمیں جمہوریت، پارلیمانی نظام اور آزاد صحافت کا ڈھونگ بھی رچائے رکھنا ہے۔ دیکھنا اب فقط صرف یہ ہے کہ ہم کب تک اس ڈھونگ کو چلائے رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

2014ءمیں اسلام آباد میں دئیے دھرنے کی بدولت ہم سب نے دریافت کر لیا تھا کہ ”چور اور لٹیروں“ پر مشتمل ہماری پارلیمان ”سب پر“ کتنی بالادست ہے۔ اس کی ”بالادستی“ کو عیاں کرنے کے باوجود ہماری حکمران اشرافیہ نے اس پارلیمان کو برقرار رکھا۔ بالآخر مارچ 2018 آگیا۔ پارلیمان کے ایوانِ بالا جسے وفاق کی علامت بھی کہا جاتا ہے یعنی سینٹ کی 52 نشستیں خالی ہوئیں، انہیں پُر کرنے کو انتخابات ہوئے تو ہم نے ”لاکھوں کروڑوں“ سے سینٹ کی رکنیت حاصل کرنے کی داستانیں سننا شروع کر دیں۔ ٹھنڈے دل سے البتہ اگر سوچیں تو زیادہ سے زیادہ 10سے 15 نشستوں کے حصول کے لئے واقعتا سرمایہ خرچ ہوا ہوگا۔

اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکمران جماعت نے 12میں سے 11نشستیں حاصل کیں۔ پیسہ اگر خرچ ہوا تو صرف ایک نشست کے لئے ہوا ہوگا۔ وہ ”ایک“ مگر حسنِ اتفاق سے اس جماعت یعنی تحریک انصاف سے تعلق رکھتا ہے جو اس ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد کی سب سے بڑی علامت ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کا 12میں سے 7 نشستیں حاصل کرلینا یقینی تھا۔ اس نے متوقع نشستوں سے صرف 3زیادہ حاصل کی ہیں اور وجہ اس کی بنیادی طورپر ایم کیو ایم کی صفوں میں ا نتشار تھا۔ بلوچستان کو ان انتخابات سے قبل ہی ”مودی کے یاروں“ کے نرغے سے آزاد کروا لیا گیا تھا۔ 6 ”محب وطن“ لہٰذا وہاں سے بآسانی سینیٹر منتخب ہوگئے۔ پیسہ واقعتاً چلا تو 3سے 4نشستیں خیبرپختون خوا سے حاصل کرنے کے لئے۔ وہاں اپنا ”ضمیر“ بیچنے والوں کا تعلق بھی حسنِ اتفاق سے اسی جماعت سے ہے جو اس ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد کی سب سے بڑی علامت ہے۔

اس کے بعدآتی ہے ”قبائلی علاقوں“ کی نمائندگی اور اس نمائندگی کے بارے میں کوئی ایک بات بھی نئی نہیں ہوئی۔ سیاپا مگر جاری ہے اور اس سیاپے میں سب سے بلند آواز بھی اسی جماعت اور اس کے عقیدت مندوں کی جانب سے سننے کو مل رہی ہے جو 2011سے اس ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد کی سب سے بڑی علامت ہے۔

”ضمیر فروشی“ کی بنیاد پر سینٹ کی بنی نئی شکل کے چیئرمین کے لئے اب ”اصولی“ بنیادوں پر جوڑ توڑ ہورہے ہیں۔ ”ایک زرداری سب پہ بھاری ہونے کو بے چین“ ہے مگر اس ضمن میں عمران خان صاحب کی نظرِ کرم کے منتظر۔ خان صاحب مگر نظرِ کرم ”سب سے بڑی بیماری“ پر کیوں ڈالیں گے؟

یہ ہے سوال جس کاجواب فی الوقت ٹی وی سکرینوں پر دن کے 24گھنٹے ڈھونڈا جارہا ہے اور مجھے یہ جواب ڈھونڈنے میں ہرگز کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).