دینی مدرسہ کا کچھ احوال: یادوں کا تسلسل


\"bakht\"

چائے پینے کا ہمیں بچپن ہی سے شوق رہا ہے، چائے کا گھونٹ بھر کے اس کا سرور دماغ کی ایک ایک نس تک پہنچانے کا مراقبانہ تصور ہم نے اس وقت سے سیکھا ہے جب ہمیں ابھی چائے کے عناصر ترکیبی اور مقداری کا بھی پورا علم نہیں تھا۔ دراصل یہ ذوق ہمیں والد صاحب سے ہی منتقل ہوا ہے۔ مدرسہ آنے کے بعد رات کو چائے کی ایسی عادت پڑی کہ جس رات نہ پیتے نیند نہ آتی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی غبار خاطر پڑھنے کے بعد اس ذوق میں ایک خاص ترنگ سا آگیا۔ چشم تصور میں حضرت آزاد کو چائے پیتے دیکھتے اور ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے۔ مدرسہ کی کینٹین میں چائے پیتے ہوئے ماموں سے روز ملاقات ہوتی۔ ماموں کینٹین کے مالک بھی تھے، چائے بنانے کے استاد بھی اور ساتھ ساتھ کاونٹر بھی خود سنبھالتے۔ چندا ماما کی طرح ہمارے ماموں اساتذہ اور 800 طلبہ سبھی کے ماموں تھے۔ اس بچے کی طرح جس نے کہا تھا:یہ چندا کیسا ماموں ہے، جب امی کا یہ بھائی نہیں،یہ بات سمجھ میں آئی نہیں، یہ بات سمجھ میں آئی نہیں۔

ہم نے بھی ویسے ہی بنا سمجھے ان کا ماموں بننا قبول کیا۔ ماموں مزاج کے غصیلے تھے، جب طلبہ کا رش لگ جاتا ماموں کا پارہ چڑھ جاتا۔ چترال کے تھے اور چترالی زبان \”کہوار\” بولتے تھے۔ ملازم کو ڈانٹتے تو ڈانٹ اور وہ بھی چترالی زبان میں یعنی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا، مجال ہے جو کبھی کلام کا شان نزول یا کوئی مطلع اور مقطع ہاتھ آیا ہو۔

ماموں کی کینٹین میں کچھ عرصہ ایک موالی قسم کا آدمی باہر سے آتا تھا۔ کیا کرتا تھا اور کہاں سے آتا تھا اس کی جاننے کی ہم نے کوشش بھی نہیں کی۔ پانچ روپے کے بڑے والے نوٹ میں ایک چائے ملتی تھی، نوٹ لہرا لہرا کر قائد اعظم کی تصویر کو چومتا اور بڑے پیار سے تہہ کر کے بقیہ پیسے جیب میں ڈالتا۔ ایک دن وضو خانے میں اپنے سوکھے سڑے کپڑے رکھے بیٹھا تھا۔ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک کلاس فیلو ساتھی کو میں نے دیکھا وہ اس کے غلاظت بھرے کپڑوں پر صابن لگا کر اسے دھونے لگا اور ساتھ ساتھ میں اپنی زندگی چھوڑ کر نئی صاف ستھری زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دینے لگا۔ تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کے ہاتھوں ایسے کمالات کا ظہور کئی بار دیکھا۔

طلبہ کے مزاجوں کے لحاظ سے بھی کئی قسمیں تھیں۔ ایک جگت بازوں کا گروپ تھا۔ یہ گروپ پڑھائی بقدر ضرورت کرتا یعنی محض امتحان میں پاس ہونے کی حد تک، رات کو پڑھائی کی چھٹی کے بعد جب اکثر طلبہ اس کے بعد بھی کتابوں میں ہی کھوئے ہوئے ہوتے یہ طلبہ دوسری منزل میں پانی کی ٹینکی کی وسیع چھت پر کھلی فضا میں ٹھنڈی ہوا کے رخ پر بستر لگا کر چائے اوپر منگواتے اور تکیوں سے ٹیک لگائے جگت بازی کرتے، گپیں ہانکتے اور قہقہوں پر قہقہے لگاتے جاتے۔ ایک بڑی تعداد ان طلبہ کی تھی جو سکول، کالج یا یونیورسٹی کسی بھی سطح سے تبلیغی جماعت سے منسلک ہونے کے بعد مدرسہ آگئے ہوتے تھے۔ یہ پڑھنے پڑھانے میں کافی دلچسپی لیتے مگر اپنے کوائف کا بھی پورا پوا خیال رکھتے یعنی مسواک، تسبیح، عمامہ، ٹخنوں سے کچھ زیادہ اوپر شلوار۔ ایک خاصیت ان میں ایسی تھی جو دوسرے طلبہ سے زیادہ تھی یعنی عبادت، دعا اور ذکر کا شوق۔ راتوں کو اٹھ کر نمازیں پڑھنے کا شوق۔ شب زندہ دار عابدوں میں کچھ عجیب طرح کے ساتھی بھی تھے۔ چلن اور ادا سے اور کچھ دن کی محفلوں میں یہ لوگ ایسے لاپروا سے نظر آتے جنہیں عبادت کا زیادہ شوق نہیں ہوتا، مگر ایسے بہت سے نوجوانوں کو مسجد کے تاریک گوشوں میں چپکے سے رب سے ایسے مناجات کرتے دیکھا کہ کئی بار روتے روتے ان کی سسکیاں مسجد میں گونجنے لگتیں۔ ایسی آہیں اٹھتیں کہ یقین ہوجاتا یہ عرش تک پہنچ کر ہی رہیں گی۔

\"madaris\" کچھ طلبہ ایسے تھے جو کتابی کیڑے تھے۔ راتوں کو دیر، بہت دیر تک پڑھتے رہتے، دن بھر میں بھی ان کے پاس فضول وقت نہ ہوتا۔ ایسے طلبہ ہی پوزیشن ہولڈر ہوتے۔ کچھ طلبہ ہم سے رند خرابات کہلاتے۔ جو ابو الکلام آزاد، شورش کاشمیری، غالب، اقبال، فیض، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، ساغر صدیقی، کرنل محمد خان، ضمیر جعفری، شفیق الرحمن اور قدرت اللہ شہاب کو بھی اتنا ہی وقت دیتے جتنا درسی کتابوں کو۔ ادبی کتابوں کے لیے ہمارا مرجع ہمارے ایک دوست تھے۔ گھر سے کتابیں لاکر پڑھنے کو ہمیں دیتے اور واپس گھر لے جاتے۔ ناصر کاظمی کی کلیات ایک رات کو پڑھنے کے لیے ملی، رات بھر جاگ کر اسے پڑھا، اس میں سے منتخب اشعار اپنی ڈائری کے سپرد کیے اور فجر سے محض دو گھنٹے قبل کتاب بند کرکے سویا۔ فیض کی دست صبا سے بہت سے اشعار پسند آئے جو رٹ کر یاد کیے۔

پس تحریر: گذشتہ تحریر پر بہت سے ساتھیوں کا محبت بھرا رد عمل پڑھنے کو ملا۔ کچھ انتہائی محترم اور صاحب فکر و نظر ساتھیوں نے اسے سنجیدہ اور محبت بھرے مکالمے کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہوئے اس کی پذیرائی کی اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اسی فرمائش اور حکم کی تعمیل میں درجہ بالا سطور نذر خدمت کردیے ہیں۔ صفحے کی تنگ دامنی کے بسبب اتنی ہی پر کفایت کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
15 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments