عورت سے نفرت کو نارمل بنا دیا گیا ہے


سوشل میڈیا پر خواتین سے نفرت دیکھتے دیکھتے ایک بڑی خوش آئند بات تھی کہ عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کے بارے میں مثبت باتیں سننے اور پڑھنے کو ملیں۔ سوشلستان میں عورت مارچ کے حوالے سے مختلف پوسٹس شیئر کی جا رہی ہیں جن میں خواتین نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔ بی بی سی اردو نے ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر چند بینرز شیئر کیے ہیں۔

ایک جانب عورت مارچ تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ مگر ہم بات کریں گے خواتین کو سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کی۔

’مجھے فاحشہ اور جسم فروش کہا گیا‘

عورتوں کے حوالے سے پہلی بار خواتین کا عالمی دن پاکستان میں بڑے جوش و جذبے سے منایا گیا۔ سوشل میڈیا پر مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ایسی نامور خواتین کا ذکر کیا گیا اور پوسٹس شیئر کی گئیں جن کی خدمات پاکستان کے لیے گراں قدر ہیں۔ سوشل میڈیا پر خواتین سے نفرت دیکھتے دیکھتے یہ ایک بڑی خوش آئند بات تھی کہ خواتین کے بارے میں مثبت باتیں سننے اور پڑھنے کو ملیں۔ مگر نفرت کرنے والے کہاں باز آتے ہیں۔ ہر ایسی پوسٹ کے نیچے کمنٹس پڑھ کر آپ کے مغلظات اور گالیوں کی معلومات میں اضافہ یقینی ہے۔

کمیل احمد معاویہ نے لکھا کہ ‘ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمیں خواتین کی ہمیشہ عزت کرنا سکھاتا ہے صرف ایک دن خواتین کی عزت کے لیے مختص کرنا خواتین کی ناقدری ہے۔’ سید یونس نے لکھا کہ ‘بحیثیت مسلمان ہمارے لیے ہر دن عورت کی عزت کرنی چاہیے نہ کہ سال میں صرف ایک دن۔’

عورت مارچ کے ایک بینر پر لکھا تھا کہ’ہم نے طوائف کے علاوە کسی عورت کو خودمختار نہیں دیکھا اس لیے ہمیں ہر عورت طوائف لگتی ہے۔’ ایک جانب ایسے کمنٹس اور دوسری جانب ان خواتین کی حیا اور عفت کے بارے میں کمنٹس دیکھنے کو ملے۔

اسی دوران برطانوی دارالعوام کی سب سے کم عمر رکن سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی رکن مائیری بلیک کی تقریر سامنے آئی جو انھوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دارالعوام کی ایک کمیٹی میں کی۔ اس تقریر کو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے مختلف پیجز نے شیئر کیا ہے اور اسے اب تک لاکھوں افراد ایسے دیکھ چکے ہیں۔

مائیری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ‘عورت سے نفرت ہمارے معاشرے میں ہر جگہ پر ہے۔ ہر ایک جگہ پر۔ اس حد تک کہ ہم بہت بار اسے سمجھ نہیں سکتے کیونکہ اسے اتنا عام کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ اسے کوئی بھی چیلنج نہیں کرتا۔’

اس کے بعد ماہری بلیک نے سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر ان کے بارے میں لکھی جانے والی زبان کے حوالے پیش کیے جو صرف ان کا تجربہ نہیں بلکہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر جانے والی تقریباً ہر عورت کا تجربہ ہے۔ مائیری نے کہا کہ ‘میں حقیقت کو کبھی بھی کم کر کے پیش نہیں کروں گی وہ بھی اتنے اہم موضوع کے بارے میں۔ میں آن لائن بری زبان اور گلیاں کھانے کی عادی ہو چکی ہوں۔

مجھے باقاعدگی سے ‘وی بوائے’ یعنی چھوٹا لڑکا کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اپنے باپ کے سوٹ پہنتی ہوں۔ مجھے باقاعدگی سے فاحشہ اور جسم فروش کہا جاتا ہے۔’ اس کے بعد مائیری نے مزید ایسے الفاظ بھی لکھے جنھیں یہاں نہیں لکھا جا سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے بارہا کہا گیا ہے کہ ‘میں اتنی بدصورت ہوں کہ مجھے کوئی ریپ نہیں کرنا چاہے گا۔’

مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا تو سب کے ساتھ ہوتا ہے آپ مرد ہوں یا عورت سوشل میڈیا پر ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے مگر مائیری نے اس پر بھی بات کی۔ ‘یہ سب تذلیل میرے لیے خصوصی طور پر تشکیل دی گئی ہے کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ ایک عورت کے طور پر۔’

ہم میں سے اکثر ایسی زبان کے استعمال کرنے والوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی مناسب ہے مگر مائیری کے مطابق ‘ہم سب ان الفاظ کو سن کر اچھا محسوس نہیں کر رہے مگر جو انھیں استعمال کر رہا ہے اسے ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ جب ان باتوں کو چیلنج نہیں کیا جاتا تو یہ نارمل ہو جاتے ہیں۔ اور جب یہ نارمل بن جاتے ہیں تو یہ ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جو خواتین کے استحصال کی اجازت دیتا ہے۔’

ایسا روزانہ ہم سب کے سامنے بھی ہوتا ہے۔ فیس بُک پر آنے والے کمنٹس جو خواتین کے بارے میں ہوتے ہیں وہ اتنے غلیظ اور گھٹیا ہوتے ہیں کہ انھیں مسلسل پڑھ پڑھ کر آپ سوچتے ہیں معاشرہ کس جانب جا رہا ہے؟ کل عورت مارچ کی ایک پوسٹ پر فیاض الرحمان نے کمنٹ کیا کہ’مغربی لباس میں اس طرح جب یہ باہر نکلیں گی تو کیا عزت محفوظ رہے گی؟ رشید خان کا خیال تھا کہ ‘کچھ عیاش قسم کی عورتیں سڑکوں پر نکل کر اپنے ملک اور اسلام کو بدنام کر رہی ہیں اور ہمارا بکاؤ میڈیا بھی کفار کا ساتھ دے رہا ہے۔’

اگر بی بی سی اردو کے فیس بُک پیج کی پروفینیٹی لسٹ شائع کی جائے تو اندازہ ہو گا کو ہماری سوشل میڈیا نسل نے زبان میں ماں بہن کی مروجہ گالیوں کے بعد کیسے کیسے نادر نمونوں کا اضافہ کیا ہے۔ اور ان سب مغلظات کے ساتھ اخلاقیات کا درس لازمی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp