زیر زمین خوابوں کو پانی دیتا ایک ناول: کوہ گراں


جب سائنس فکشن لکھنے والوں کی زبانی یا ان کے تخیل کی مہربانی سے کسی اجاڑ، بے آب و گیاہ یا انسانی زندگی کے حق میں ناموافق دنیا کو آباد کرنے کی کوشش کا قصہ پڑھنے کو ملتا ہے تو دل میں لہر سی اُٹھتی ہے کہ کاش ایسی مہم سر کرنے کا موقع ملے۔ اس انداز سے جہان نو بسانے کی نوبت تو پتا نہیں کب آئے گی۔ کام کڈھب ہے اور انسانی ٹیکنالوجی ہنوز ابجدی۔

خالد فتح محمد نے اتنے بڑے موضوع پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ ان کے ناول ’’کوہِ گراں‘‘ کا پس منظر جانا پہچانا بھی ہے اور اس کے باوجود غیر مانوس بھی۔ جو قصہ ناول میں بیان کیا گیا ہے وہ ابھی تو حقیقت نہیں لیکن ہماری عاقبت نا اندیشی کے سبب، شاید دس بیس سال میں بھیانک روپ میں سامنے آجائے۔

ناول کا مرکزی کردار، حلیم، کسی بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد، اپنے گاؤں کی طرف لوٹ آتا ہے۔ گاؤں جو کبھی آباد تھا، ویران پڑا ہے، کھنڈر ہو چکا ہے۔ پانی کہیں نظر نہیں آتا۔ لوگ پانی کی نایابی کی وجہ سے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ان کے غیر آباد گھر لوٹے جا چکے ہیں۔ ٹمبر مافیا نے کوئی درخت سلامت نہیں رہنے دیا ہے۔

حلیم نے اپنی کشتی جلا کر گاؤں کا رُخ کیا ہے۔ اس نے ٹھان لی ہے گاؤں کہ کو دوبارہ آباد کیا جائے، تا کہ جو مثال وہ قائم کرے اس سے متاثر ہو کر آس پاس کے گاؤں بھی آباد ہوتے چلے جائیں۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پانی کہاں سے آئے جو زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے؟ جس نہر کے کنارے گاؤں آباد تھا یا برباد ہے وہ سوکھی پڑی ہے۔

مہم جو کا خیال تھا کہ گاؤں میں کوئی بھی نہ ہو گا۔ اس کا قیاس غلط نکلا۔ ایک اپاہج آدمی اور تپ دق میں مبتلا مریض وہاں ٹکے ہوئے تھے اور حلیم ان کو جانتا تھا۔ ایک جوان عورت بھی موجود تھی جس کی ماں سے حلیم واقف تھا۔ اگر گاؤں میں نہ پانی تھا اور نہ کھانے کی کوئی چیز دستیاب تھی تو اجڑے گاؤں کے یہ تین باسی زندہ کیسے تھے؟ پتا چلتا ہے کہ دونوں مرد وقفے وقفے سے گاؤں سے ان سمتوں میں نکل جاتے تھے جہاں ابھی آبادی تھی اور مانگ تانگ کر یا کسی اور ترکیب سے اتنا سامان خور و نوش لے آتے ہیں کہ تنگی ترشی سے گزر اوقات ہو سکے۔

حلیم کا ارادہ کہ وہ گاؤں کو ازسر نو آباد کرے گا ان تینوں ویرانہ نشینوں کو دیوانے کی بڑ معلوم ہوا۔ آخر پانی کہاں سے آئے گا؟ جب ارادہ پختہ ہو تو اسباب بھی بہم ہو جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اِدھر اُدھر سے لوگوں کی تائید بھی حاصل ہونے لگتی ہے۔ گویا ’’میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل‘‘ والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اجڑے گاؤں میں گزارے ہوئے دن رات کا نقشہ ناول نگار نے اچھا کھینچا ہے۔

مسئلہ، بہرحال، وہیں کا وہیں تھا۔ پانی کہاں سے حاصل کیا جائے؟ گاؤں میں جہاں کچھ نہ اُگتا تھا پہلے پہل کیکٹس لگانے کا بندوبست کیا گیا۔ یہ سخت جان نیم صحرائی پودا ہے۔ شروع میں تو اسے ایک مرتبہ کہیں سے پانی لا کر دینے کی ضرورت پڑی۔ پھر شبنم کیکٹس کا سہارا بن گئی۔

خشک نہریں پانی لانے اور گاؤں تک پہنچانے کی ایک ہی صورت رہ گئی تھی۔ وہ یہ کہ مرالہ ہیڈ ورکس کو جزوی یا کلی طور پر ڈائنامایٹ سے اُڑا دیا جائے۔ یہاں سے ناول حقیقت سے گریز کر کے خالص افسانوی منطقے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کا کام نا ممکن معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ناول آج کے بارے میں نہیں ہے۔ اس میں پچیس تیس سال آگے کی کہانی ہے۔

آخر میں حلیم کو پتا چلتا ہے کہ ہیڈ ورکس کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پانی کا ریلا گاؤں کی طرف بڑھا آرہا ہے۔ حلیم کے جو ساتھی اس کارروائی میں شریک تھے مارے جا چکے ہیں اور فوجی حرکت میں آچکے ہیں تا کہ پتا چلائیں پانی کہاں پہنچانا مقصود تھا۔ جب شام کے وقت حلیم بے یقینی کے عالم میں خشک نہر کے کنارے کھڑا تھا تو یکایک دور سے گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ یہ بادلوں کی گرج تھی۔ بجلی چمکتی ہے اور موسلا دھار بارش برسنے لگتی ہے۔ یہ خاتمہ ڈرامائی تو ہے لیکن کئی سوال اس لیے لپٹے ہوئے ہیں، کیا مدت سے بارش ہی نہیں ہوئی تھی؟ یا شاید قدرت اسی وقت مہربان ہوتی ہے جب کسی مقصد کے لیے خون بہایا اور بنی بنائی چیزوں کو برباد کر دیا جائے؟

ناول کا کمزور حصہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ حلیم کے محرکات کا پتا نہیں چلتا۔ اس نے اتنا بڑا قدم کیوں اُٹھایا، اس کے بارے میں اس کی توضیحات تسلی بخش معلوم نہیں ہوتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے قدم پہلے اُٹھایا اور جواز بعد میں تلاش کیا۔ یہ معاملہ ذرا کھٹکتا ہے۔ بہرحال، اس نئے آدم اور نئی حوا کی کہانی، جنہوں نے معکوس سفر کیا ہے یعنی دنیوی جہنم سے خیالی بہشت کی طرف چلے ہیں، اس جل تھل میں ختم ہوتی ہے۔

کوہِ گراں از خالد فتح محمد

ناشر : الحمد پبلی کیشنز، لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).