ماما ایوب : جا تیرا اللہ نبی وارث


ماما ایوب میری والدہ کا چچا زاد بھائی تھا۔ میری اُس سے پہلی ملاقات شاید 1981 کے آس پاس ہوئی، میں اس وقت ساتویں میں پڑھتا تھا۔ جڑانوالہ کے قریب ہمارا گاوں ہے۔ جڑانوالہ سے ستیانہ روڈ پر جائیں تو ایک سٹاپ “ڈورشن” کہلاتا ہے۔ ایک طرف گوگیرہ برانچ کی نہر ہے۔ اور کیا نہر ہے، چوڑی اور گہری۔ پتھر ایک طرف سے پھینکیں تو پار نہ کروا پائیں، اور پانی کا بہاو اتنا تیز کہ میں نے آج تک کسی کو اس میں نہاتے نہیں دیکھا، تیرنا یا عبور کرنا تو دور کی بات ہے۔ ڈورشن کے سٹاپ پر اس نہر کے بالکل نیچے سے ایک سیم نالہ گذرتا ہے، سمجھیے کہ ایک جمع کا نشان بنتا ہے۔ یہ علاقہ نہری اور زرعی ہے، کماد یعنی گنا یہاں کی بنیادی فصل ہے۔ پانی کی سطح اوپر آنے سے زمین کی نمکیات سطح زمین پر آگئیں اور اس وجہ سے زمین بنجر ہوتی چلی گئی۔ زمین کو دیکھیں تو اس کی سطح پر سفید نمک کی تہہ نظر آ تی ہے، اسے سیم اور تھور کی بیماری کہتے ہیں۔ اس کے توڑ کے طور پر سیم نالہ بنایا گیا۔ اس نالے میں زمینی پانی ڈال دیا جاتا ہے کہ باقی زمین میں پانی کی سطح نیچے چلی جائے اور زرعی زمین کاشت کے قابل رہے۔

ڈورشن کا سٹاپ مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتا رہا ہے۔ یہ ایک خوبصورت سین ہے، ایک نہر بہتی ہوئی اور اس کے عین نیچے سے ایک نالہ اُس کو ترچھا کاٹتا ہوا، یہ ایک سول انجینئرنگ کا خوبصورت نمونہ ہے۔ ڈورشن کے سٹاپ پر اتر کے سیم نالے کے ساتھ چار مربعے پیدل چلیں تو ہمارا گاوں 56 گ ب، جسوانہ آتا ہے۔ سیم نالے گہرا ہے اور اس کے ساتھ کی کچی دیواروں پر ان گنت پرندوں نے اپنے گھر بنا رکھے ہیں، خصوصاً لالیاں ان دیواروں میں بنے سوراخوں سے اتنی تعداد میں جھانکتی ہیں اور شور مچاتی ہیں کہ کسی اور جہاں کا منظر نظر آتا ہے۔ اکثر نالے میں بچے ڈولا مچھلیاں پکڑ رہے ہوتےہیں۔

ہم جو گاوں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگئے تھے، کبھی کبھی گاوں جاتے تھے۔ گاوں میں مامے ایوب سے میری پہلی ملاقات 1981 ہوئی،وہ فوج میں سپاہی تھا اور ان دنوں چھٹی آیا ہوا تھا۔ گاوں میں وہ ایوب فوجی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پیدل فوج یعنی انفنڑی کا سپاہی، قد درمیانہ، جسم گٹھا ہوا، یونٹ کا پہلوان اور کبڈی ٹیم کا ممبر، کھلا ڈلا، بغلگیر ہو تو ایک گرمائش دے، اردو نہیں بولتا تھا اور اُس کی پنجابی مجھے سمجھ نہ آ تی تھی۔ مگر پہلی ملاقات میں ہی ہماری یاری ہوگئی۔ اگلے دن صبح صبح ہم شکار پر تھے۔ مامے کے پاس ایک سنگل بیرل کی بندوق تھی، کارتوسوں والی۔ کارتوس جن میں چھرے بھرے ہوتے ہیں۔ گاوں کے قریب ہی ایک بڑا سا پانی کا ذخیرہ تھا جس کے درمیان میں گھنے خود رو پودے تھے، ہم دونوں شلواریں اوپر اڑس کر اس میں جا داخل ہوئے۔ پودوں کے پاس پہنچے ہی تھے کہ سوروں کا ایک جھتہ سامنے تھا، بچے اور بڑے۔ مامے نے مجھے پیچھے کیا اور فوراً واپسی کو ہو لیا۔ میں کوئی معرکہ، کوئی تھرل چاہتا تھا، اُسے کہنے لگا کہ فائر کرے۔ مامے نے کہا کارتوس سور کی کھال پر اثر نہیں کرتے اور جب انکے بچے ساتھ ہوں تو یہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ سو ہم واپس ہو رہے، راستے میں کماد کے کھیتوں سے ہم نے رنگ برنگے مرغ شکار کئے جنہیں مقامی زبان میں کمادی ککڑ کہتے ہیں۔

ماما ایوب فوج سے اٹھارہ سال نوکری کےبعد لانس نائیک بن کر ریٹائر ہوگیا۔ میں نے انجینئرنگ کر لی، ماما خوش تھا کہ بھانجا پڑھ گیا ہے۔ جب بھی ملتا، خوشی سے ملتا، مجھے عاطف صاحب ہی کہہ کر ہمیشہ مخاطب کیا۔ میں اُسے ماما کہتا اور ہمیشہ اپنے ساتھ بھینچتا، وہ ہمیشہ محبت کی گرمائش دیتا۔ فوج سے ریٹائر ہوا تو معاشی مشکلات تھیں، بچے چھوٹے تھے، زرعی زمین کم تھی۔ میں ملا تو پوچھا، “ماما ہن کی کریں گا”، کہنے لگا “اللہ نبی وارث”۔ کچھ عرصے بعد پولیس میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہو گیا۔ ڈیوٹی لاہور میں کانونٹ سکول کے گیٹ پر لگی۔ میری بیٹیاں وہاں پڑھتی تھیں۔ ہمارا سکول کے گیٹ پر خصوصی برتاو ہوتا۔ بچیاں کسی وقت مامے ایوب کو سکول میں ملتیں تو ماما جیب سے دس کا نوٹ نکال کر اُنہیں دیتا اور ساتھ دعا دیتا، “سکھی رہوو”۔

ماما لاہور میں تھا کہ ایک دن اُس کی بیوی خریداری کے لیے گاوں سے جڑانوالہ آئی۔ واپس چِن چی پر جا رہی تھی کہ ایک تیز رفتار بس نے کچل ڈالا۔ مامی کی موقع پر وفات ہو گئی۔ میں گاوں جنازے پر پہنچا۔ چھوٹے بچے، گھر کو سنبھالنے والی چلی گئی، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی ستھرائی سب سامنے آن کھڑا ہوا۔ میں نے پوچھا، “ماما ہن کی ہویے گا “، کہنے لگا “اللہ نبی وارث”۔ مامے نے دوبارہ شادی نہ کی، خود ہانڈی روٹی شروع کر دی۔ بڑی بیٹی نے آگے بڑھ کر ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ جو بیٹی کے کھیلنے کے دن تھے، وہ بہت جلد ختم ہوگئے۔

میں آسڑیلیا شفٹ ہوگیا، ابھی پچھلے ماہ پاکستان گیا تو ماما ایوب گاوں سے ملنے آیا۔ ساتھ مٹھائی کا ڈبہ ساتھ لایا۔ ذائقہ وہ نہ تھا جو ہم شہری کھاتے ہیں، مگر خلوص اتنا تھا کہ میں نے اور مامے نے مل کر خوب کھائی۔ رات ہمارے ہی ہاں ٹھہرا۔ میں اس کے ساتھ شرارتیں کرتا رہا، وہ ہنستا رہا۔ اُس کی پنچابی کو سمجھنے کے لیے مجھے اب بھی کوشش کرنا پڑتی تھی، مگر بہت سے باتیں الفاظ سے علیحدہ کہی جاتی ہیں اور وہ دل سمجھتا ہے۔ پولیس کے ساتھ مامے کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا تھا۔ میں نے پوچھا، “ماما ہن کی کریں گا”، کہنے لگا، “اللہ نبی وارث، جڑانوالہ میں ایک شوگر مل میں وقتی جاب مل رہی ہے، گھر کی گذر ہو جائے گی”۔

 آج بروز جمعہ 8 مارچ 2018 صبح ہی خبر آئی کہ کل ماما ایوب جڑانوالہ میں مل کے ملازمین کی تنخواہیں بنک سے نکلوا کر آرہا تھا کہ راستے میں گھات لگائے ڈاکوؤں نے فائرنگ کر دی جس سے ماما ایوب اور اُس کے دو ساتھی جان بحق ہو گئے ہیں۔ آج جمعے کی نماز کے بعد جنازہ ہے۔

میں چپ ہوں، گم صم۔

ماما، کچھ کے لیے تو ایک عام سا گارڈ ہوگا، میرے لیے تو سب کچھ تھا، تو میرا یار تھا۔ وہ جو سوروں کے ریوڑ سے مجھے بچا کر لایا تھا، وہ جو تو سکول کے گیٹ پر ہنس کر ملتا تھا، وہ جو دس کے نوٹ تو نے بچیوں کو دعاوں کے ساتھ دیے، میرے لیے تیری یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ میں آج دور بیٹھا تیرے جنازے کو کندھا نہیں دے سکتا۔ بس یہی کہوں گا، “جا ماما، تیرا اللہ نبی وارث”۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor