Must Answer سے ایک ملاقات


\"tarrar3\"”حاضرین میں یہ بتاتا چلوں کہ میں ایک کان سے بہرا ہوں۔ یہ بات میں نے ایک محفل میں بتائی تو ایک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے۔ جناب آپ پہلے یہ بتائیں کہ آپ کس کان سے بہرے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ بس ایک کان سے بہرا ہوں۔ وہ صاحب بولے کہ نہیں جب تک آپ یہ نہیں بتا دیتے کہ آپ کس کان سے بہرے ہیں ہم آپ کو نہیں سنیں گے۔ تو پھر میں نے آخر ان سے کہا کہ صاحب دیکھیں یہ میری صوابدیدپر ہے کہ کس وقت میں کس کان سے بہرا ہوں“

یہ اور ایسی اور بہت سی مزیدار باتیں جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب سے یوایم ٹی پریس فورم کے زیر اہتمام منعقد کی گئی ”لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک“ کے عنوان تلے منعقد کی گئی ایک تقریب میں سننے کو ملیں۔ لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہر ماہ کسی نہ کسی ادبی شخصیت کے ساتھ ایک ادبی بیٹھک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ اہتمام یوایم ٹی پریس فورم کرتا ہے۔ جس کے مینجر جناب الیاس مرزا صاحب ہیںاور ان کے ساتھ ساتھ معاونین میں ڈاکٹرعمرانہ مشتاق صاحبہ اور برادرم احمد سہیل نصراللہ صاحب بھی شامل ہیں۔ ہر ماہ باقاعدگی سے احمد سہیل صاحب مجھے بھی اس ادبی بیٹھک میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ جو کہ میں ان سے بھی زیادہ باقاعدگی اور شوق سے فوراََ سے بیشتر قبول بھی کر لیتا ہوں۔اس بار جب انہوں نے فون کیا اور بتایا کہ مستنصر حسین تارڑ صاحب اس ماہ کے مہمان ہیں تو خوشی سے دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا کہ اب کی بار تو علم و ادب کے ایک بلند نام سے ملاقات ہو گی۔

\"mustansar\"اتوار کو مقررہ وقت سے کوئی دو چار منٹ پہلے ہی اپنے زاہد شجاع بٹ صاحب کو ساتھ لیے میں یو ایم ٹی پہنچ گیا۔ ادبی بیٹھک سے پہلے یو ایم ٹی کی طرف سے پرتکلف قسم کے لاہوری ناشتے کا اچھا خاصا انتظام ہوتا ہے۔ لاہور کے روایتی ناشتے نان چنے ، نان پائے حلوہ پوری کے علاہو تھوڑا ”ممی ڈیڈی“ ناشتہ بریڈ ، آملیٹ وغیرہ بھی ہوتا ہے۔ سارے لوگ ادبی بھوک مٹانے سے پہلے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے لاہوری ناشتے سے خوب انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ (یہ جن جن دوستوں کی طرف اشارہ ہے وہ سمجھ جائیں اور اگلی بار ہتھ ہولا ہی رکھیں ناشتے پر )۔ کھانے کے بعد جب سب لوگ کانفرنس ہال میں بیٹھ گئے تو آغاز حسب ِ روایت تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اور اس کے بعد طاہر پرویز مہدی بھائی نے کلام پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ پھر ہمیشہ کی طرح جناب الیاس مرزا صاحب نے حاضرین کے لیے استقبالیہ تقریر کی۔ اگلی باری ڈاکٹر عمرانہ مشتاق صاحبہ کی تھی جنہوں نے مستنصر حسین تارڑ صاحب کا تعارف کروانا تھا۔ بقول سہیل وڑائچ صاحب کوزے کو سمندر میں کیسے پھیلانا ہے ڈاکٹر صاحبہ خوب جانتی ہیں۔ لیکن اس بار جس ہستی کا تعارف کروانا تھا ان کا تعارف ہی اتنا طویل تھا کہ واقعی ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی کوشش کی کہ سمندر کو کوزے میں بند کیا جا سکے۔ اب وقت شروع ہوا مستنصر صاحب کی باتوں کا۔ جو ان کی چھہتر سالہ زندگی کے تجربات تھے۔ پروگرام کی موڈیریٹر محترمہ آمنہ مفتی نے سوال سے بات شروع کی۔ اور پہلا سوال مستنصر صاحب کے ٹی پر مارننگ شو پر کے بارے میں تھا۔ مستنصر صاحب ٹی وی پر پاکستان کی تاریخ میں مارننگ شو کرنے والے پہلے شخص ہیں اور بچوں کے چاچا جی کے نام سے مشہور۔ آج کے مارننگ شوز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک بار متحدہ عرب امارات میں ایک نجی چینل کی مارننگ شو ہوسٹ نے ان سے کہا کہ سر آج پاکستان میں جتنے بھی مارننگ شو ہو رہے ہیں وہ سب آپ کے پیدا کیے ہوئے بچے ہیں۔ مستنصر صاحب کا جواب سن کر حاضرین دیر تک کھلکھلا کر ہنستے بھی رہے اور تالیاں بھی بجاتے رہے ۔ مستنصر صاحب نے کہا کہ ان مارننگ شوز میں سے ایک دو کو تو میں جانتا ہوں ۔ باقی کسی کی پیدائش میں میرا کوئی ہاتھ نہیں بی بی ۔

باتوں میں سے باتیں نکالنا اور دیر تک بولنا یہ ایک ایسی مہارت ہے جو کم کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ اور یہ مہارت مستنصر حسین تارڑ صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ تب تک بول سکتے ہیں جب تک سننے والے سننے کی ہمت رکھتے ہوں ۔ سننے والا تھک سکتا ہے لیکن مستنصر صاحب سنا سنا کر نہیں تھکیں گے۔ ایک بار کسی چینل پر نئی نئی جاب شروع کرنے والے دو نوجوان مستنصر صاحب کے پاس جا پہنچے اور کہنے لگے کہ سر ہمارے پاس پینتالیس منٹ ہیں بات کرنے کے لیے ۔ کیا آپ اتنی دیر بول سکتے ہیں ؟ مستنصر صاحب نے جواب دیا کہ میں اتنے ہی دن بول سکتا ہوں کیاتمہارے پاس سننے کے لیے اتنے دن ہیں ؟ محفل کو مزاح کے ساتھ زندہ رکھنے کا ہنر بھی مستنصر صاحب خوب جانتے ہیں۔ اور اس ہنر کا بہت اچھی طرح استعمال انھوں نے پوری گفتگو کے دوران جاری رکھا۔ مزاح کے علاوہ وہ جتنا نرم دل رکھتے ہیں اس کا اندازہ تب ہوا جب انہوں نے اپنے ایک کالم کا ذکر کیا جو انہوں نے سانحہ پشاور کے تناظر میں لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یہ کوئی دوسرا واقعہ تھا جس نے مجھ پر اتنا اثر کیا۔ کالم میں بتائی گئی کہانی کے مندرجات پر بات کی تو ہر کسی کی آنکھیں اشکبار ہونے کو تھیں۔ اور پھر اسی کالم کا تسلسل انہوں نے سانحہ گلشن اقبال پر لکھا۔

اپنی عمر کے ابتدائی حصے یعنی نوجوانی میں ہی وہ پاکستان سے باہر چلے گئے۔ اور مغربی لباس کے لدادہ تھے۔ سامنے حاضرین میں بیٹھے مجیب الرحمان شامی صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ میں یہ ایسا لباس نہیں پہنتا تھا جیسے یہ شامی صاحب نے شلوار قمیض پہنی ہوئی ہے کہ میں کوئی پینڈو ہوں جو ایسا لباس پہنوں۔ ان کی اس بات پر شامی صاحب سمیت حاضرین قہقہے لگاتے رہے۔ پھر جب ٹی وی پر مارننگ شو شروع کیا تو اس کے بعد ایسا لباس پہننا شروع کر دیا ۔ اس کے بعد پاکستانی لگنا شروع ہو گیا۔ اور پاکستانی لگنے کی عادت ہو ہی جاتی ہے انسان کو۔

کچھ سوال حاضرین کی طرف سے بھی پوچھے گئے۔ ایک محترمہ نے جب پوچھا کہ آپ کانام بہت مشکل ہے ایسا نام کس نے رکھا تو کہنے لگے کہ محترمہ آپ بچپن میں تھوڑی محنت کر کے پڑھائی کرتیں تو مشکل نہ لگتا۔ اس موقع پر انہوں نے نام یاد رکھنے کا ایک دلچسپ طریقہ بھی بتایا۔ کہتے جب باہر تھا توکافی انگریز خواتین میری پرستار ہو گئیں۔ لیکن ان کو میرا نام بہت مشکل لگتا تھا۔ میں نے ان کو کہا کہ آپ لوگ اکثر کہتے ہیں ناں

You Must Answer This Question

تو یہMust Answer میرانام ہے ۔

میرے جیسے ایک نوجوان نے سوال کیا کہ میں بھی لکھنے کا شوق رکھتا ہوں آپ مجھے بتائیں کہ میں ایسا کیا کروں کے میں بھی آپ جیسا لکھ سکوں۔ مستنصر صاحب نے اس کی عمر دریافت کی تو بولا بیس سال۔ بڑا سادہ سا جواب دیا کہ ستاون سال انتظار کر لو میرے جیسا لکھنا شروع ہو جاؤ گے۔ یوں ہی سوالات کے پرمزاح انداز میں جواب دیتے تقریب کا اختتام ہو گیا اور آخر میں یہ سوچ کر کہ شاید ہاتھ ملانے سے میرے لکھنے میں بھی بہتری آ جائے ان سے ملنے پہنچ گیا اور موقع کا فائدہ اٹھا کر ایک سیلفی بھی بنا دلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments