باقی تو سارا مشن پورا ہو گیا ہے


کتنے خواب دیکھے تھے کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب یہ ملک ترقی کرے گا۔ اب عوام کی حاکمیت ہو گی۔ اب نظریہ ضرورت ختم ہو جائے گا۔ اب جمہوریت کی گاڑی پٹری پر چل پڑی ہے اب سفر آگے ہی آگے کی جانب جائے گا۔ پہلا جمہوری دور جیسے تیسے لوگوں نے گزار لیا۔ دوسرا جمہوری دور پہلے سے بہتر تھا اور اگر عوام کے ووٹ کو تقدیس ملتی رہی تو پھر تیسرا دور اس سے بھی بہتر ہوگا۔ معیشت ترقی کرے گی۔ شاہراہیں تعمیر ہوں گی۔ تعلیم کے مسائل حل ہوں گے۔ غربت ختم ہو گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملے گا۔ زراعت میں ترقی ہو گی۔ صنعتیں پھلیںاورپھولیں گی۔ یونیورسٹیاں تعمیر ہوں گی۔ ا سکول بنیں گے۔ اسپتال میسر ہوں گے۔ پاکستانی پاسپورٹ کو عزت ملے گی۔ بیرون ملک پاکستانی، پاکستان آکر بسیں گے۔ سرمایہ کاری ہوگی۔ سی پیک کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔ دہشت گردی ختم ہوگی۔ حبس کے دور سے نجات ملے گی۔ جبر کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔ آزادی اظہار میسر ہو گی۔ راستے، منزل بنیں گے۔ قدامت پسندی دم توڑ جائے گی۔ جدت ہمارا مقدر بنے گی۔ دہائیوں سے پس ماندہ کروڑوں زندگیوں کو سانس لینے کی جسارت ملے گی۔ زندی کو ایک نئی روشن اور پرنور عبارت ملے گی۔

لیکن سب خواب پورے نہیں ہوتے۔ جمہوریت کا خواب بھی خواب ہی رہ گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے اس خواب کی تعبیر اس قوم کے مقدر میں نہیں۔ یہی ملک تھا چند ماہ پہلے کیسی مختلف صورت حال تھی۔ روز نئے پروجیکٹس کا افتتاح ہو رہا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر روابط ہو رہے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ اوپر ہی اوپر جا رہی تھی۔ ووٹ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ لوگ اپنے نمائندوں سے کارکردگی طلب کر رہے تھے۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی۔ انرجی کرائسس دم توڑ رہا تھا۔ ریلوے کی صورت حال بہتر ہو رہی تھی۔ گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا تھا۔ موٹر ویز بن رہیں تھیں۔ الیکشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ مردم شماری ہو رہی تھی۔ نئی حلقہ بندیوں پر کام ہو رہا تھا۔ دنیا دبے دبے لفظوں میں پاکستان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو رہی تھی۔ لیکن اس سارے جمہوری عمل کو انصاف کے نام پر زمیں بوس کر دیا گیا۔ سار سفر اکارت گیا۔ ساری محنت مٹی میں مل گئی۔ ہم پھر ماضی کی طرف لوٹ گئے۔ روشنیاں اچانک گل ہو گئیں۔ امیدیں اچانک دم توڑ گئیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ایک جمہوری وزیر اعظم ایک بے بنیاد الزام پر نا اہل قرار پایا۔ وزیر خزانہ پر کرپشن کے الزامات لگنے لگے۔ ایک خاندان کو مائنس کرنے کا نعرہ سامنے آنے لگا۔ پنجاب حکومت کے دہائیوں پرانے کیس کھلنے لگے۔ وزرا ء کی فعالیت مشکوک قرار دے دی گئی۔ انتظامیہ ہر وقت فاضل عدالت میں حاضر رہنے لگی۔ جس کو چاہا منٹوں کے نوٹس پر بلا لیا گیا۔ جس کو چاہاسرعام بے عزت کر دیا گیا۔ وہ وہ ریمارکس دیے گئے جو دنیا کے سامنے ہماری تضحیک کا باعث بن گئے۔ انصاف کے نام پر انتقام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آئے روز پیشیاں ہونے لگیں۔ جے آئی ٹی جیسے ہیرے دریافتکیے گئے۔ جمہوری وزیر اعظم کے خلاف نام نہاد ثبوت بڑی بڑی پیٹیوں میں میڈیاکے سامنے پیش کیے گئے۔ بدنام زمانہ والیم دس کا ذکر ہونے لگا۔ چند ماہ پہلے والی صورت حال بالکل بدل گئی۔ ترقی، تنزلی میں بدلنے لگی۔ دنیا پھر سے ہمیں آنکھیں دکھانے لگی۔ اب کسی بات کا یقین نہیں ہو رہا۔ اب کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔

سینیٹ کے الیکشن کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ سیدھی سی بات کا کیسا المناک انجام سامنے آ رہا ہے۔ کیا، کیا کھلواڑ ہو رہے ہیں۔ پارلیمان کے تقدس کو کس کس حیلے سے پامال کیا جا رہا ہے۔ کھیل کی ابتدا پہلے بلوچستان اسمبلی سے ہوئی۔ جانے کس کے ایماپر اچانک بغاوت ہوگئی۔ اس بغاوت کے پیچھے خفیہ ہاتھ اب اتنے خفیہ بھی نہیں رہے۔ پھر پارلیمنٹ کے الیکشن سے پہلے ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کو اس کے نام سے محروم کر دیا گیا۔ آزاد امیدواروں کے نام پر منڈی لگا دی گئی۔ پھر اچانک چار منتخب سینیٹروں پر دہری شہرت کا گمان ہونے لگا۔ سندھ میں ایک سازش کے تحت ایم کیو ایم کے ووٹ پیپلز پارٹی کو پہنچا دیے گئے۔ پھر چیئرمین سینیٹ کے نام پر جھگڑے ہونے لگے۔ ہر جمہوریت پسند کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں۔ ارکان کی خرید و فروخت مویشیوں کی طرح شروع ہونے لگی۔ ابھی چیئرمین سینیٹ کے بننے اور نو منتخب سینیٹرز کے حلف اٹھانے میں کچھ دن ہیں۔ جانے ان چند دنوں میں کیا ہو جائے۔ کون سا فرمان کس کو نا اہل کر دے اور کس کے ماتھے پر سہرا سجا دے۔ یہ سب کچھ ہم سب کے سامنے ہو رہا ہے اور اس سسٹم کو بچانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ پارلیمان کو بے بس کر دیا گیا ہے۔ انتظامیہ کو نت نئے احکامات سے معطل کر دیا گیا ہے۔ خفیہ ہاتھ پوری تندہی سے اپنے کام میں مگن ہیں۔ جمہوریت کا جنازہ دھوم دھام سے نکل رہا ہے۔

مفروضہ یہ تھا کہ سینیٹ کے شفاف الیکشن ہو جائیں تو پھر عام انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ پھر راج کر ے گی خلق خدا۔ مگر اس ملک میں ابھی یہ منزل بہت دور ہے۔ ابھی جمہوریت پسندوں کی مشکلیں آسان نہیں ہوئیں۔ سینیٹ کے الیکشن کے حشر نشر کو دیکھنے کے بعد اب عام انتخابات سے بہت زیادہ توقع رکھنا ممکن نہیں لگتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس پارٹی کو لوگ ووٹ دیں اس کو برسر اقتدار آنا چاہیے۔ لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب اعتبار اٹھتا جاتا ہے۔ جانے کون کون سے کھیل عام انتخابات سے پہلے کھیلے جائیں۔ کون کون سے سانپ پٹاری سے نکالے جائیں۔ اب وسوسے دل میں پل رہے ہیں، خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ کیا معلوم ملک کی سب سے بڑی جمہوری جماعت پر الیکشن میں شمولیت پر قدغن لگ جائے۔ کیا معلوم سب سے بڑی جماعت کے انتخابی نشان کو تبدیل کر دیا جائے۔ کیا معلوم حلقہ بندیوں کے نام پر کیا تماشےکیے جائیں۔ کیا معلوم نواز شریف اور مریم نوز کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ کیا معلوم کسی عدالتی حکم کے تحت انتخابی پوسٹر پر نواز شریف کی تصویر لگانے پر ممانعت کا حکم ا ٓجائے۔ کیا معلوم نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگ جائے۔ کیا معلوم کیا ہو جائے۔

اب جو کچھ ہو رہا ہے یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایسا تو آمریت کے تاریک ادوار میں ہوتا تھا۔ ایسا تو ڈکٹیٹروں کے زمانے میں ہوتا تھا۔ ایسا تو آئین کی دھجیاں اڑانے والے کیا کرتے تھے۔ یہ وطیرہ جموری ادوار کا نہیں ہے۔ اب اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ کوئی جمہوری دور ہے۔ ایسا لگتا ہے آمریت کا سانپ ہمیں پھر ڈس چکا ہے۔ اب خفیہ ہاتھ سامنے آئے بغیر ہی تاک تاک کر نشانے لگائے جا رہے ہیں۔ اب ڈکٹیٹر روپ بدل کر ہمارے سر پر بیٹھ گئے ہیں۔ اب ووٹ کے تقدس کے ساتھ وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو آمروں کا وطیرہ رہا ہے۔ جو ڈکٹیٹروں کی روایت رہی ہے۔ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان جمہوریت کش طاقتوں کا باقی تو سارا مشن پورا ہو گیا ہے بس اب پی ٹی وی فتح کرنے کا مرحلہ رہ گیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar