میری اتنی موجیں


محترمہ لائبہ زینب کے ایک باکمال لکھاری ہونے میں، کم از کم، مدیر “ہم سب” کو شک نہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والی چھوٹی سی عمر کی اس خاتون نے صحافت میں اعلیٰ تعلیم پائی ہے۔ ایسی چلبلی طبیعت کہ “انہیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں”۔ اور پھر موضوعات کا انتخاب دیکھیں تو معلوم ہو، الطاف فاطمہ نے انہیں اپنا قلم تھما دیا ہے۔ الطاف فاطمہ سے تو موضوعی مناسبت ہے، دراصل انہیں رامش فاطمہ نے اپنا قلم میراث کیا ہے۔ اس تحریر میں ایک ننھی سی بچی کا ذکر آیا ہے جو سکول سے چھٹی ملنے پر خوشی میں نہال ہوئی جا رہی ہے۔ خیال آیا کہ ایک تصویر میں اس بچی کی خوشی کا کوئی عکس ملنا چاہیے۔ بہت ڈھونڈا۔ اور پھر ہمیں اپنے عزیز دوست خالد حسین کی بنائی ہوئی ایک تصویر مل گئی۔ اتفاق سے خالد حسین بھی ملتان کے گلگشت سے ہیں۔ قلم سے تصویر کھینچتے ہیں اور کیمرے میں خیال باندھتے ہیں۔ ایک ننھی پختون بچی کی یہ تصویر کئی برس پہلے موسم خزاں کی ایک شام میں Kodak DCS SLR/n camera سے بنائی گئی۔ اور پھر اسے Adobe Photoshop CC 2015 کی مدد سے نکھارا گیا۔ موجیں کرتی ننھی بچی کی خوشی رقم کرنے والی لائبہ زینب سلامت رہے، رنگوں بھری ٹافی کی مٹھاس کیمرے میں محفوظ کرنے والا خالد حسین خوش رہے۔ اور اس دیس میں بسنے والی ہر ننھی گڑیا اسی طرح خوشیوں میں نہاتی رہے۔

 

ابھی میرے چاچو کی بیٹی آئی اور خوشی خوشی بتایا کہ اسے بہت کم ہوم ورک کرنا پڑے گا اگلے دو دن اور بیٹھے بیٹھے کہنے لگی کہ “میری اتنی موجیں، میری اتنی موجیں”۔ مجھے اُس پر بہت پیار آیا۔ ابھی وہ صرف دوسری جماعت کی طالب علم ہےمگر اس کے لئے یہ خوشی بہت بڑی ہے کہ ہوم ورک کم کرنا پڑے گا۔ چھوٹی عمر میں خوشیاں بہت بڑی ہوتی ہیں نا۔

اس سب نے میری سوچوں کو ایک اور جانب لے جانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ جاب کے ابتدائی دنوں میں میں نے بچوں کے بھاری سکول بیگز پر ایک رپورٹ بنائی تھی۔ بچوں میں چڑچڑے پن اور سکول سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بستے اور سکول کے کام کی پریشانی ہے۔ ننھے بچوں کے نازک کاندھوں پر بھاری بھرکم بستے کسی ظلم سے کم نہیں ہے۔ اس سے انکی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ملتان واپڈا ہسپتال میں ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر سجاد کے مطابق بھاری بستے اور سکول کے کام کی پریشیانیوں کے باعث بچوں میں نظر کی کمزوری، چڑچڑا پن، کاندھوں میں درد، قد کا کم بڑھنا، ذہنی دباؤ کا شکار ہونا اور اس طرح کے دیگر مسائل کا رپورٹ ہونا اب عام سی بات ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ بچوں کے لیئے بس کھیل کود ہی ہو سکول میں مگر خود بتائیں بچوں کے وزن سے بھی زیادہ بھاری بستے اور پڑھائی کے نام پر رٹے کہاں کا انصاف ہے۔ کیا یہ واقعی پڑھائی ہے؟ یا ہم صرف اپنے بچوں کو ذہنی مریض بنا رہے ہیں؟ نمبروں کی دوڑ میں اتنی بری طرح پڑ گئے ہیں ہم کہ علم نام کی چیز بے کار لگتی ہے ہمیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کے سو فیصد نمبر آئیں مگر یہ نہیں ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہر بچہ فرسٹ ہی آئے۔

کامیاب انسان بننا تو سب کی خواہش ہے مگر یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کامیابی تب ہی ملے گی جب گدھے کی طرح کتابیں لادنے کے بجائے علم حاصل کرنے کی جستجو ہو۔ لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ اگر بچوں کو ہم کلاس ورک، ہوم ورک کی چکی میں ہی پیستے رہیں گے تو انکے پاس وہ وقت کہاں سے آئے گا جب وہ اپنی صلاحیتوں کے خزانے کو اپنی ذات میں تلاش کر سکیں گے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تدریسی علم اور کتابوں کے متن میں ترمیم کر کے انہیں موجودہ دور کے مطابق بنایا جائے۔ بچوں پر ذہنی اذیت کا ظلم ختم ہوگا تو ہی وہ کامیاب بن سکیں گے اور یہ کامیابی ان کی اپنی خوشی ہوگی۔

جب تک یہ سب نہیں ہوتا

تب تک بچوں سے یہی سنیں

میری اتنی موجیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments