امریکہ میں نئے سفیر علی جہانگیر صدیقی کی ناقابلِ انکار آفر


امریکہ سے تعلقات دن بدن بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ڈو مور کا راگ اونچے سروں میں لے جا کر امریکہ خود پاکستان کے ساتھ ڈو مور کرنے پر تل گیا ہے۔ پہلے پاکستان کو تین مہینوں کے لئے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈال دیا، اور اس کے بعد بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے جس کے بعد پاکستان کے لئے شدید معاشی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹیکس دیتے نہیں، کرپشن رج کے کرتے ہیں، اس لئے ہمارا ملک قرض پر چلتا ہے۔ قرض دینے والے سارے ادارے امریکی اشارے پر ناچتے ہیں۔ بلیک لسٹ میں آنے کی صورت میں پاکستانی لیٹر آف کریڈٹ غیر ملکی بینکوں میں قبول نہیں کیے جائیں گے اور درآمد برآمد مشکل ہو جائے گی۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔

اب ڈانلڈ ٹرمپ تو بدمست سانڈ بنے ہوئے ہیں۔ یہ عزم رکھتے ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھا کر ہی رہیں گے۔ حالانکہ واشنگٹن میں اعزاز چوہدری جیسا منجھا ہوا سفارت کار موجود ہے جس کا 36 برس کا سفارت کاری کا تجربہ ہے۔ مگر پھر بھی تعلقات نارمل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان رنگ رنگ کے سفیر تعینات کر چکا ہے۔ کبھی صحافی کو سفیر بنا کر بھیج دیا جاتا ہے، کبھی سیاستدان کو، کبھی کسی سابقہ جرنیل کو تو کبھی کسی پروفیسر کو۔ لیکن امریکہ سے تعلقات اچھے ہو ہی نہیں رہے ہیں۔

غالباً وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہی سوچا ہو گا کہ امریکہ میں سبھی ممالک لابسٹ فرموں کے ذریعے اچھے تعلقات خریدتے ہیں تو کیوں نہ براہ راست ڈانلڈ ٹرمپ سے ہی اچھے تعلقات خریدنے کے لئے باقاعدہ کسی کامیاب بزنس مین کو ہی بھیج دیا جائے۔ ویسے بھی موجودہ امریکی صدر خود بھی تاجر ہیں تو ان سے بزنس ڈیل کرنے کے لئے سب سے موزوں کوئی تاجر ہی رہے گا۔ یہ بھی شنید ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کیونکہ امریکہ کی آئیوی لیگ یونیورسٹی میں پڑھے ہوئے ہیں تو ڈانلڈ ٹرمپ کے حلقہ یاراں تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔

غالباً یہی سب کچھ سوچ کر وزیراعظم نے علی جہانگیر صدیقی کو سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ کر دیا جو سٹاک ایکسچینج، بینک، سیمنٹ اور ائیرلائن وغیرہ چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ وزیراعظم کی ائیرلائن میں حصے دار بھی ہیں اور یوں وزیراعظم ان کی کاروباری لیاقت کا ذاتی طور پر مشاہدہ کر چکے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے وزیراعظم نے ان کو اپنا مشیر بدرجہ وفاقی وزیر مقرر کر رکھا تھا۔ اور اب سفارت کاروں، صحافیوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں سے مایوس ہو کر ہی وزیر اعظم نے اس امید پر ان کا امریکہ میں تقرر کر دیا ہے کہ وہ ڈانلڈ ٹرمپ سے ڈیل کر لیں گے۔ بلکہ گاڈ فادر کے الفاظ میں وہ صدر ٹرمپ کو ایک ایسی آفر کریں گے جسے وہ انکار نہیں کر پائیں گے۔ علی جہانگیر نے غالباً وزیراعظم کو یقین دلا دیا ہو گا کہ ”آئی ایم گونا میک ہم این آفر دیٹ ہی کینٹ ریفیوز“۔

ادھر صدر ٹرمپ بھی ایک بزنس مین ہیں۔ وہ کوئی غیر عملی یا نظریاتی شخص تو نہیں ہیں کہ اچھی بزنس آفر کو کسی نظریے کی بنیاد پر مسترد کر دیں۔ ہو سکتا ہے کہ اچھی آفر پر وہ ہاں کہتے ہوئے گاڈ فادر ہی کے الفاظ میں جواب دے دیں کہ ”آفٹر آل وی آر ناٹ کمیونسٹس“۔ ابھی تک تو پاکستان کی یہ کوشش تھی کہ ڈانلڈ ٹرمپ کو مافیا سیریز سوپرانوز والی آفر جاری رکھیں۔ یعنی ”آئی ایم گونا میک ہم این آفر دیٹ ہی کینٹ انڈرسٹینڈ“۔ لیکن لگتا ہے کہ ٹرمپ کو کچھ سمجھ نہ آئے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے۔ اس لئے آفر بدلی گئی ہے۔

بفرض محال علی جہانگیر صدیقی کوئی بزنس ڈیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پاکستان کے پاس صحافی، سیاستدان، جرنیل اور بزنس مین کو ناکام سفیر مقرر کرنے کے بعد بھی اہل افراد کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کو خدا نے بے تحاشا ٹیلنٹ سے نوازا ہے۔ خدانخواستہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا تو وزیراعظم کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ پروگرام خبرناک والے علی میر کو واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیج دیں۔ علی میر موقع محل کی مناسبت سے ہر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خواہ صحافی کا ہو، بزنس مین کا، سیاستدان کا، جرنیل کا، سفارت کار کا یا میراثی کا۔ یاد رہے کئی مرتبہ تو وہ ڈانلڈ ٹرمپ کا کردار بھی بخوبی ادا کر چکے ہیں۔ ویسے بھی سیانے کہہ گئے ہیں کہ مزاح مشکل سے نکال دیتا ہے اور میراثی کی جگت پر ظالم جاگیردار بھی دانت پیستا پیستا دانت نکالنے لگتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar