چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اور دوہری شہریت


اسلام آباد میں پچھلے دنوں خوب سیاسی گہما گہمی رہی ہے۔ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے عدالتی فیصلے کے باوجود سینیٹ انتخابات کا انعقاد اور نون لیگ کا سینیٹ میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لینا عدالتی فیصلے پر سوالات تو اُٹھا رہا ہے۔ لیکن ان دنوں اسلام آباد میں کھیلے جانے والے کھیل میں نواز شریف نے ترپ کا پتہ پھینک کر آغاز کیا کہ اکثریت کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنے اُمیدوار کا نام دینے کی بجائے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی ہی کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اب اسے زرداری کی سیاسی حکمتِ عملی کہیے یا چال کہ اُنھوں نے رضا ربانی کے نام سے فوری طورپر نہایت شائستگی سے انکار کر دیا۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کو وہ انداز پسند نہ آیا جس سے پیپلز پارٹی کے اس جیالے نے سینیٹ کو چلایا، بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن زرداری نے ایک زبردست چال کھیلی ہے۔ اوّل تو یہ کہ نواز شریف کی چال کو اُنھیں پر پلٹادیا ہے اور اس مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ وہ کوئی اپنا نام سامنے لائے اور دوسری طرف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے کم از کم آئندہ عام انتخابات تک کسی قسم کی پھڈے بازی سے بچنے کی راہ نکالی ہے۔ یہ زرداری کا وہی گیم پلان ہے جسے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے لیک کرنے کی کوشش کی تو اُنھوں نے موصوف کو اپنی ترجمانی سے ہی فارغ کر دیا۔

نون لیگ کے لیے دوسری طرف مشکلات تحریکِ انصاف نے کھڑی کر دی ہیں کہ عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف کی پارٹی کا چیئرمین کسی طور سے نہیں بننے دیں گے کیونکہ اس طرح وہ اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کوئی قانون بنا سکتے ہیں۔ اُنھوں نے پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ دینے سے انکار کیا ہے بلکہ چیئرمین کے لیے بلوچستان کے محروم صوبے کو باری دینے کی بات کی ہے۔ اس طرح عمران خان نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو مینڈیٹ دے کر نون لیگ کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جبکہ نواز شریف بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت کے اُلٹے جانے کا تماشا پہلے ہی دیکھ چکے ہیں جس میں زرداری کا بھی اہم کردار تھا۔

عمران خان نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات میں اُن کے علاقے سے آزاد اُمیدوار کے لیے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ مگر جب وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے انٹرویو میں زرداری کے ساتھ مل کر مشترکہ اُمیدوار لانے کے فیصلے بارے بات کی تو عمران خان کو اپنی ہی پارٹی کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ گویا اس طرح اُنھوں نے زرداری ہی کے آگے اپنی پوری جماعت رکھ دی ہے۔ مریم نواز نے بھی بہاول پور جلسے میں عمران کو زرداری کے پلڑے میں بالواسطہ اپنا مینڈیٹ ڈالنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عمران خان نے اگلے ہی روز فی الحال تو یو ٹرن لے لیا ہے اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

چیئرمین کے انتخاب میں اہم کردار مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے، جنہوں نے زرداری اور نواز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ البتہ فضل الرحمن نے موجودہ صورتِ حال میں مسلم لیگ نواز کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ فضل الرحمن نے عمران خان پر اس معاملے میں سخت تنقید کی ہے اور انہیں لیڈر ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول اُن کی یہ کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا متفقہ اُمیدوار سامنے لایا جائے۔ مولانا صاحب نے آصف علی زرداری کو میاں رضا ربانی ہی کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

تحریکِ انصاف کے لیے زیادہ مشکلات ہیں کہ وہ نہ تو حکمران جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال سکتی ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے کہ ہر دو صورتوں میں انہیں اپنے ماضی کے بیانات پر کوئی اور نہیں تو اپنی جماعت کے لوگوں سے ہی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس شرمندگی سے بچنے کے لیے عمران خان یا تو اپنا کوئی اُمیدوار سامنے لائیں گے اور یا پھر بلوچستان کے کسی آزاد اُمیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیں گے یا پھر ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے عمل میں حصہ ہی نہ لیں۔ لیکن یہ صورتِ حال آصف علی زرداری کے لیے مشکلات کا باعث بن جائے گی کہ انھیں نواز شریف کے مدمقابل اپنے اُمیدوار کی کامیابی کے لیے تحریکِ انصاف کی حمایت از حد ضروری درکار ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اگرچہ نمبروں کے کھیل اور جوڑ توڑ میں مہارت رکھتے ہیں لیکن یہ مرحلہ اُن کے لیے بھی مشکل کا باعث ہوگا۔ اوّل تو ان کی پوری کوشش ہوگی کہ تحریکِ انصاف کو کسی بھی طریقے سے رام کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جس کے لیے انھیں عمران خان سے سودے بازی بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف آصف زرداری نے رضا ربانی کے باب کو مکمل طور پر بند نہیں کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے رضا ربانی کے لیے آواز بھی بلند کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آخری وقت میں آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی کمزور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے رضا ربانی کے حوالے سے اپنا فیصلہ منسوخ کر دیں۔ لیکن اس صورت میں مسلم لیگ کے لیے اس تجویز سے اتفاق کرنے میں نہ صرف یہ کہ مشکل ہوگی بلکہ اس کی پوزیشن بھی کمزور پڑ جائے گی۔

ان چند دنوں میں سینیٹ کے چیئرمین کے متفقہ اُمیدوار کی نامزدگی کے لیے اسلام آباد میں سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ عروج پر رہا ہے اور جوڑ توڑ کا عمل بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ یقیناًایک متفقہ اور سب کے لیے قابلِ قبول اُمیدوار ہی سامنے آئے گا، جس کے لیے عین ممکن ہے کہ دو بالکل متضاد پارٹیاں آپس میں ربط بڑھا کر اتفاقِ رائے پیدا کر لیں کیونکہ سیاست میں حرفِ آخر کچھ بھی نہیں۔

ایک طرف تو سیاسی میلہ لگا ہوا ہے اور دوسری طرف تشویش کی بات یہ ہے کہ دوہری شہریت کے حامل پانچ نئے منتخب ہونے والے سینیٹرز کا معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ چیئرمین کے انتخاب میں اب کچھ ہی وقت باقی رہ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کا ان کے بارے میں فیصلہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب پر دور رس اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال کافی پریشان کُن ہے۔

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi