بھارت کی سری دیوی سے ہماری سر پھری دیوی تک!


پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں میں عاصمہ جہانگیر اور سری دیوی ہند و پاک منظر نامے کا سپر ہٹ کردار رہیں ۔ دونوں کے شوق کے میدان الگ الگ سہی لیکن زمانہ بہرحال الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسافر کی شعوری پرداخت کے ابتدائی عہد میں، یہ دونوں عروج پہ آئیں اور ہپر طرف چھا گئیں۔ ہم تینوں کا سفر ابھی جاری تھا کہ یہ دو ساتھ چھوڑ گئیں سو ان کا قرض ہے کہ ان کے عہد میں جینے والے خوش قسمت انہیں یاد کریں۔ اپنے ہاں سن 80 کی دہائی میں بالغ ہونے والی ضیائی نسل کی پہلی، مثبت تفریح، سری دیوی تھیں اور منفی ہیروئن عاصمہ جہانگیر۔۔۔

تب پی ٹی وی پر فرمان اور ترانے ملتے تھے تاہم VCR پر فلمیں اور گانے۔ تب اوسطاً مہینہ ڈیڑھ کے وقفے سے، اچانک ملنے والی نعمت اور دولت نئی انڈین کیسٹ ہوتی تھی جو عموماً سال بھر پرانی فلم ہی ہوتی۔ اگرچہ گلوبلائزیشن نے اُس مختصر لڑکپن کو چینل تھری ، STN، کیبل ، فلاپی اور پھر انٹرنیٹ کی جوانی سے جا ملایا مگر حسنِ شخصی کا محبوبانہ رنگ اور ذوق انہی فلموں کے ناز و نیاز میں پروان چڑھا۔ تب مذہبی پس منظر رکھتے نوجوانوں میں سری دیوی خاموش مسرت سمجھی جاتی تھی جبکہ عاصمہ ناپسندیدہ بغاوت۔۔

زیادہ جانتے تھے کہ فلم ‘نگینہ’ اور ‘چاندنی’ میں مورنی جیسا رومان انگیز ناچ پیش کرتے ہوئے سری دیوی دوپٹہ کیسے پھینکتی تھی مگر کم جانتے تھے کہ انہی دنوں ایک آمر کو انگلیوں پہ نچاتی ایک سرپھری دیوی سربازار دوپٹے کو آگ کیسے لگاتی تھی۔

دھندلے خواب جیسا، بہت کچھ۔۔ اور بھی۔۔ اب بھی۔۔ یاد آتا ہے۔ مثلاً ۔۔۔ لڑکپن تھا۔ نوے کی دہائی تھی اور آمرانہ باقیات اپنے جوبن پہ۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی ہراول ایک ‘نظریاتی’ جماعت کی ذیلی نوجوان شاخ کی مزید ذیلی برانچ برائے نونہالان کے کسی تربیتی سیشن میں شریک تھا۔ ایک سفید ریش کتاب تھماتے بولے:

‘‘بیٹا۔ پردہ پر یہ کتاب صرف ماؤں بہنوں کو ہی نہیں، ہمیں خود بھی پڑھنا ہو گی ۔ ہم بے نظیروں اور عاصمہ جہانگیروں جیسی مذہب بیزار، دشمنان ملک و ملت کا مقابلہ صرف علم اور شعور سے ہی کرسکتے ہیں تاکہ ہم ایمان و یقین کے ساتھ امت مسلمہ کی تقدیر بدلنے کیلئے۔۔۔۔’’

‘‘ صفیں سیدھی کر تے رہیں۔۔’’

میں نے دری بچھاتے ہوئے مذاق میں جملہ مکمل کیا جسے موقع مناسبت اور حفظ مراتب کے خلاف سمجھا گیا ۔

خیر ۔۔۔ مجھے اس ‘اینٹی عاصمہ بیانیہ’ پہ یقین کرنا پڑا کہ تب، ٹی وی ریڈیو مردہ تھے اور اخبار رسالے صرف پنڈی اشتہارات‘ پہ زندہ!!

سو، صاف سی بات ہے کہ عاصمہ کے نام سے جڑی گستاخیاں سن سن کے نفرت بڑھتی چلی گئی ۔

اگلے برسوں میں، جب حکومت ملنے کے باوجود، اس اتحاد کی نہ صرف تخریب ہوئی بلکہ تشکیل میں حساس اداروں کی سرمایہ کاری پر اکا دکا شخصیات اور بی گریڈ اخبارات منمنائے تو معاملہ شناس خاموش رہے۔ تاہم یہی ایک عورت تھی جو پرو اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں میں بانٹے جانے والی رقم پر چنگھاڑی:  ‘عوام جو پیسہ آپ کو دفاع کے لئے دیتے ہیں، اس سے آپ مرضی کے الائنس کیوں بنواتے جتواتے ہیں ’

مجھے، تب، یہ منہ پھٹ عورت کچھ کچھ سچی کھری لگی تاہم امیر محترم کے بقول اس بداخلاق عورت نے محض افواہوں پر ملکی اداروں کے خلاف بیان دے کر اخلاقی ، تہذیبی اور انسانی گراوٹوں کی ساری حدوں کو پامال کر دیا ہے۔

حدوں کے لفظ سے مجھے حدود آرڈیننس یاد آیا اور میں نے صادق امین اشفاق بابوں پہ یقین کر لیا کہ یہ گستاخ عورت بے تکے الزام لگا کر محض شہرت بٹورنا چاہتی ہے۔۔ لیکن، خدا پوچھے، ان سچے سپہ سالاروں کو کہ کچھ عرصہ بعد، جنہوں نے خود ہی پیسے بانٹنے کا علانیہ اعتراف کر کے، میری اس سے نفرت میں کمی کا سفر شروع کروا دیا۔ بہرحال وہ میری پہلی نفرت تھی ۔

کالج لائف میں بھی، ارد گرد، سب سے زیادہ ناگواری سے لیا جانے والا نام اسی کا ہوتا تھا۔ مذہبی عقیدت کے بوئے گئے ہارمونز سے اٹھتے، اُس بلوغتی عہد میں، مجھ محرومِ نسواں کو، یہ سیگرٹ کے کش لگاتی آزاد عورت مزید کھلتی تھی کہ ہم مردانِ مشرق حجاب و نقاب اور چادر و چاردیواری میں بند سماجی VCR پہ سری دیویاں دیکھ کے غالب ؔگنگنانے کے عادی تھے

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

 جب کہ عاصمہ کچھ ایسے غصیلے مصرعوں کی قائل تھی کہ

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

سو، اس کے بالکل الگ، عجیب اور چبھتے موقف سن سن کر اب اسے جاننے سمجھنے کی خواہش پیدا ہونے لگی تھی ۔

دوسری بار اس نے اکیسویں صدی کے عین استقبال پر ، تب چونکایا جب مسافر، ایک اردو اخبار میں سب ایڈیٹری کرتا تھا ۔ آمریت کو گھر، خاندان اور اداروں میں اتنا دیکھا اور برتا تھا کہ فرد واحد کی حکومت سے نفرت سی ہو گئی تھی۔  1999 کا مارشل لا لگا تو قاضی، بی بی، عمران سمیت سب نے ویلکم کیا مگر ان خوش آمدیدی شہ سرخیوں تلے ایک سنگل کالمی خبر میں پھر یہی تھی جس نے مشرف کو جمہوری بساط لپیٹنے پر دھتکارا اور للکارا تھا۔

 حیرت ہوئی کہ اب تو اس کے اپنے مزاج کا لبرل انقلابی آگیا ہے۔ یہ اب بھی کیوں چیخ چلا رہی ہے۔  تب، مجھے وہ، پہلی نظر میں، واقعی عالمی نادیدہ طاقتوں کی ٹاؤ ٹ دکھائی دی کہ بڑے بڑے لبرل دانشور جس روشن خیال مشرف کے کتوں کے رقص سے شغل فرما رہے تھے، یہ اس کے خلاف بھی بیان داغ رہی تھی۔

 پھر، بھلا ہو پرائیویٹ چینلز کا اور سستے سست انٹرنیٹ کا کہ جوں جوں اسے پڑھتا، سنتا اور جانتا گیا، حیرت بڑھتی گئی۔ مثلاً

٭ ایم کیو ایم کے مارشل لا لگانے کے بیان پر شدید احتجاج ، پھراسی ایم کیو ایم کے ماورائے عدالت قتل پرسخت ردعمل

٭ ایم ایم اے کی پالیسیوں پر منصورہ کے باہ رسخت تقریریں، پھر اسی قاضی کی ماورائے قانون گرفتاری پر احتجاج

٭ انڈیا سے برادرانہ تعلقات کی علمبردار مگر کشمیر و گجرات پر مودی کےمظالم کے خلاف عالمی سطح پرانڈیا کی دوٹوک مذمت

٭ جنرل مشرف عہد میں ججز سے بدسلوکی پرسراپا احتجاج اور پھر انہی جج صاحبان کے متنازع فیصلوں کی شدید ناقد

٭ طالبان و اسامہ کی کٹردشمن مگر اسامہ کی فیملی اور ڈاکٹر عافیہ کی جبری گرفتاری پہ نہ صرف احتجاج بلکہ پہلی رٹ پٹیشن

سو ، جوں جوں اس کی انسان سے اور انسانی حقوق سے محبت و عقیدت عیاں ہوتی گئی، نفرت دھلتی گئی اور وہ کھلتی گئی۔۔

میں نے اسے بہت قریب سے تب دیکھا، جب وہ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک میں فیض آباد سے اسلام آباد جاتے، ہائی وے پر، مشاہیر کے ساتھ ایک کنٹینیر پر سوار تھی۔ اس کا اچانک کھڑے ہو کر، بلند آواز میں منع کرنے کا ایک اشارہ مجھے آج بھی یاد ہے جو وہ بالکل میرے ساتھ پشتون دوستوں کی ایک مختصر ٹولی کو کر رہی تھی ۔

‘گو مشرف گو’ کی اجتماعی دھن میں ، یہ من چلے اپنا ہی سر پیٹنے کی عوامی مزاحیہ حرکتوں سے تفریح کشید رہے تھے ۔ اس نے کنٹینر نما ٹرک سے انہیں دیکھا تو فوراً متوجہ ہوئی اور بڑی دلسوزی سے سر پیٹنے سے منع کرتے ہوئے، ایک مہذب سا نعرہ لگوایا جو مجھے اب یاد نہیں ۔

اتنے پھیلے لانگ مارچ میں ، اتنے بڑے لوگوں کی رفاقت میں، دو تین من چلوں کی اس اضطراری حرکت پہ اس کی اس مادرانہ دلچسپی نے اس دن، اس ساری نفرت کو اسی کنٹینر تلے کچل دیا۔ یاد ہے کہ کئی دن میں صرف اس پہ ہی نازاں رہا کہ اس نے میرے بالکل ساتھ تین مزاحیہ حرکتیں کرتے نوجوانوں کو روکتے ہوئے، مجھے بھی محبت سے دیکھا تھا۔

اب، کَھلنے کے بجائے جب وہ کُھلنے لگی تو اتنا قریب تر محسوس ہوئی کہ پچھلے بارہ پندرہ برس سے، اس کا ہر اعلان اپنا موقف محسوس ہونے لگا۔  یہاں تک کہ کمانڈو کی ساکھ مٹی میں ملانے کے بعد، جب اس وقت کی مقبول جارحانہ لہر (گرفتاری) سے، مختلف موقف اختیار کرتے ہوئے، مشرف نے جب ماں کی بیماری پہ باہر جانے کی درخواست کی تو اس نے حمایت کردی۔ یہ حمایت پسند نہ آنے کے باوجود مجھے اس کی حقیقت پسندی، استقبالی وژن، انسان دوستی اور جمہوریت کیلئے آگے بڑھنے کی روادار معاملہ فہمی نے متاثر کیا۔

اور پھر وہ مر گئی ۔

 مجھے اس کی وفات سے زیادہ افسوس اس پر ہوا کہ معتدل ہوتے اکابرین ملت جو اسے گستاخ و ایجنٹ کہتے رہے، اس کے مرنے پر، ذرائع ابلاغ پر اس کی انسان دوستی اور کمٹمنٹ کے بیانات دے رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش نوے کی دہائی میں بھی وہ ایسا ہی اعتدال دکھاتے تو وہ میری پہلی نفرت نہ ہوتی، محبت ہوتی۔۔۔

خیر۔۔ وہ چلی گئی!

بہت سے اور سوچنے، لکھنے، کھوجنے والے بھی چلے گئے۔۔ ساقی فاروقی سے جام ساقی تک قہر و ابتلا کے عہد میں اپنے نظریہ سے وابستہ رہنے والے، سقوط دیوار برلن سے انہدام سوویت یونین تک کی ہولناکیوں میں ٹوٹے ضرور مگر بکھرے نہیں۔۔۔ اب یہ چراغ روشنی بکھیتے بکھیرتے خود بکھر رہے ہیں۔

مسافر تو سمجھتا ہے کہ عاصمہ سے منو بھائی تک ۔۔۔۔ اپنا ، ہر انٹلیکچوئل اگر عالمی سطح کے دانشوروں کی اوسط عمر سے پہلے مرتا ہے تو یہ موت نہیں، قتل ہے اور اس کی ذمہ دار ریاست ہے جو غریب کو پانی تو نہیں دیتی، حساس ذہنوں کو یہ پریشانی دے کر مار دیتی ہے کہ غریب کے پاس پانی تک کیوں نہیں۔

بلاشبہ مادر مزاحمت زندہ رہے گی۔۔ دل کے چراغوں میں بھی اور تاریخ کی کتابوں میں بھی!

وہ میری پہلی نفرت تھی ،مگر اس قحط الرجال میں اب لگتا ہے کہ شاید آخری محبت ہو!

مجھے یقین ہے کہ وہ آج کل خدا سے جہنمیوں کے بنیادی حقوق پر لڑ رہی ہو گی۔ کاش، ایسے میں، اسے کوئی میری نفرت محبت کی یہ کایا کلپ داستان سنا دے کہ شاید وہ سن کر امداد آکاش کی طرح یوں حیران ہو کے پوچھ لے

ابر نیساں ، ریگزار عاشقی کیسے ہوا

وہ ہنر پیشہ، شکار عاشقی کیسے ہوا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).