ہم آٹھ مارچ کے دن بھی سچ پڑھنا یا بولنا نہیں چاہتے


سچ بولنا بہت آسان ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ دوسروں کے بارے میں بولا جائے۔ ہمارے ملک میں ستر سال سے دوسروں کے بارے میں سچ بولا جا رہا ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کے بارے میں سچ بولتے ہیں۔ پھر وہ فوج کے بارے میں سچ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ فوجی حکمراں جب اقتدار میں نہیں رہتے تو وہ بھی سچ بولنے پر اتر آتے ہیں۔ عدالت میں بہت زیادہ سچ بولا جاتا ہے۔ پہلے اتنا زیادہ نہیں بولا جاتا تھا مگر پاناما کیس کے شروع ہونے سے لے کر اب تک سچ پر سچ بولا جا رہا ہے۔

صحافی بھی سچ بولتے ہیں۔ صحافیوں کا سچ اس لحاظ سے منفرد ہوتا ہے کہ ان کی ذمہ داری ہی سچ بولنا ہوتی ہے۔ ویسے تو سب کی ذمہ داری سچ بولنا ہی ہوتی ہے مگر صحافی پیسے ہی سچ بولنے کےلیتے ہیں۔ سچ بولنے میں کچھ اخبارات اور میڈیا گروپ سر فہرست ہیں۔ ایک میڈیا گروپ ایک سیاسی جماعت کے بارے میں سچ بولتا ہے تو دوسرا میڈیا گروپ دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں سچ بولنا شروع کر دیتا ہے اس طرح قوم کے سامنے سچی باتیں ہر وقت کھل کھلا کر سامنے آتی رہتی ہیں۔ عوام بھی سچے ہیں۔ وہ ان تمام سچی باتوں پر اپنی اپنی پسند اور عقیدت کے لحاظ سے ایمان لاتے ہیں اور سچ کا برملا پرچار شروع کر دیتے ہیں۔

عوام کے پاس سوشل میڈیا نامی ایک ہتھیار بھی ہے جس پر ہر وقت سچ بولا جاتا ہے۔ اتنا سچ بولا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اس سچ کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ کسی کی ذات ہو، کردار ہو، عقیدہ ہو، پیشہ ہو یا کچھ بھی نہ ہو، اس کے بارے میں سچ سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سچ پر ایمان رکھنے والی یہ قوم سچ کو اتنا پسند کرتی ہے کہ جیسے ہی کوئی سچ سامنے آتا ہے یہ آگے دس لوگوں کو “فارورڈ ایز ریسیوڈ ” کر دیتی ہے۔ وہ دس لوگ سو لوگوں کو اور وہ سو لوگ ایک ہزار لوگوں کو سچ “فارورڈ ایز ریسیوڈ “کر دیتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف “فارورڈ ایز ریسیوڈ” سچ چھا جاتا ہے۔

خواتین اپنے بارے میں سچ بولتی ہیں اور ان کا سچ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ مگر جب کوئی مرد اپنے بارے میں سچ بولنے کی جرات کرے تو مردانگی کو بل پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بیشتر مرد اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی پر سچ نہیں بول پاتے اور اس طرح سرے سے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہاں اگر مرد اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے والا سچ بولے تو اس کو قبول بھی کیا جاتا ہے اور داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برسنے لگتے ہیں۔ مردانگی کو تسکین بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس وقت مگر یہ میرا موضوع نہیں ہے۔

جب ہر طرف سچ بولا جا رہا ہو تو انسان اس سچ سے متاثر ہو ہی جاتا ہے۔ چناچہ میں بھی ایک سچ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے آپ لوگ اس سچ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔ آٹھ مارچ کو میری ایک تحریر زیر عنوان “صرف مرد نہیں لڑکیاں بھی شکاری ہوتی ہیں” ہم سب پر شائع ہوئی جس میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کو تھوڑا بہت “زیب داستاں” کے ساتھ میں نے لکھا اور پیش کر دیا۔ آٹھ مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مرد کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم اس ایک دن خواتین کے جائز حقوق ان کو ادا کیے جائیں۔ کم از کم میرا تو یہی حسن ظن تھا۔ تو ایسے میں سوچ سمجھ کر میں نے وہ تحریر لکھی اور عین خواتین کے حقوق والے دن وہ ہم سب پر شائع ہوئی۔ میری توقع تھی کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایسی تحریر جس کا عنوان ہی اشتعال انگیز ہو، وہ قبولیت کی سند حاصل نہ کر پائے گی اور لوگ اس کو نظر انداز کر کے ان تحریروں پر توجہ کریں گے جن میں خواتین کے اصل مسائل کی طرف نشان دہی کی گئی ہو۔ مگر ہوا اس کے عین الٹ اور شائع ہونے کے دو تین گھنٹوں کے اندر اندر یہ تحریر مقبول ترین تحریروں میں جگہ بنا چکی تھی۔ اور دس بارہ گھنٹوں کے بعد یہ ہم سب پر اس دن کی سب سے مقبول ترین تحریر بن چکی تھی۔اور پچھلے تقریباً اڑتالیس گھنٹوں سے یہ تحریر مقبول ترین تحریروں میں سب سے اوپر ہے۔

کسی لکھاری کے لیے یہ بات نہایت تسکین آمیز ہوتی ہے کہ اس کی تحریر پڑھی جائے۔ مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرے۔ مگر اس تحریر کی مقبولیت نے مجھے خوشی کی بجائے پریشان کر دیا ہے۔ میں نا چاہتے ہوئے بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے پڑھنے والوں کی اکثریت نے خواتین کے حقوق کے دن کے موقعے پر خواتین کے اصل مسائل سے لاتعلقی کا اظہارکر دیا ہےاور اس کے بجائے ایک ایسی تحریر کو سند قبولیت بخش دی جو اس مخصوص دن کے حوالے سے نہایت منفی تاثر رکھتی تھی۔ ویسے یہی رویہ ہم ملکی سیاست میں بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس تحریر پر لگ بھگ ایک سو افراد نے اپنا رد عمل دیا جس میں سے قریباً نوے فیصد ردعمل منفی تھا۔ اکثریت نے اس تحریر کو سچ ماننے سے انکار کر دیا۔ بہت سوں کی مردانگی کو اس تحریر سے ٹھیس پہنچی اور کئی ایک نے ناقابل اشاعت الفاظ میں خاطر تواضع کی۔ مگر یہ سب چلتا ہے۔ قاری کا حق ہوتا ہے کہ وہ تحریر کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے بارے میں اپنا نقطہ نظر جیسے چاہے بیان کرے۔

میرا سوال آپ لوگوں سے مگر بہت سادہ سا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لڑکیوں کو شکاری قرار دیتی ہوئی ایک تحریر کی مقبولیت کو کیا نام دیا جائے؟ کیا یہ ہم لوگوں کی خواتین کے حقوق کے دن کے موقع پر خواتین کے حقوق سے لاتعلقی کا ایک واضح ثبوت نہیں ہے؟

جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad