گھر چھوڑنا بھلا کب آسان ہوتا ہے؟


ضروری نہیں کہ آپ ہنستے مسکراتے رہیں، قہقہے لگاتے ہوئے وقت گزاریں، فیس بک پر خوشیوں بھری پوسٹس لگائیں یا کھکھلاتے ہوئے کال پر بات کریں تو کوئی دکھ نہیں ہے آپ کو۔ یہ بھی لازم نہیں کہ آنکھیں شرارت سے چمکیں تو دور کہیں دل کے کسی کونے میں یاسیت بھرا احساس نہ ابھرے۔ بھلے آپ کو پردیس کی چاٹ لگ چکی ہو اور مہینوں بعد دیس واپسی پر بھی آپ ایک ہفتہ بھی گھر نہ رکیں، بے شک اپنے شہر واپس آ کر اپنے آنگن میں صبح سے شام تک نہ رکیں مگر جب وقت رخصت ہو تو آنکھیں نم ہو ہی جاتی ہیں۔ ماں کا پیار، بہن کی ہنسی، بھائیوں کی لڑائی اور ابو کی ڈانٹ سب دل میں بسا کر گھر سے جانا ہو تو بھلا نینوں میں بسا سمندر بہنے سے کہاں رکتا ہے۔

ابھی تو کوئی شادی بیاہ کا چکر نہیں ہے، ابھی تو گھر آنے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت بھی نہیں ہے، ابھی تو کوئی واپس آنے سے روکنے والا بھی نہیں ہے، ابھی تو کوئی مجبوری بھی نہیں ہے مگر گھر سے جاتے ہوئے دل بے قرار کیوں ہے یہ معلوم نہیں ہے۔ جہاز کی کھڑکی سے سر ٹکائے سوچ رہی ہوں کہ جو اپنا گھر چھوڑ کر جاتی ہوں گی ان کے دل پر کیا کیا طوفان نہ گزرتے ہوں گے۔ ذرا سوچیں ایک لمحے کو کہ جس گھر میں پلے بڑھے، اٹھتی جوانی کی مست بہاریں جس آنگن میں گزاریں، وہاں سے انجان چار دیواری میں جانے والیوں کا حوصلہ کتنا ہوتا ہوگا؟ اور اب یہ سوچیں کہ اگر اس انجان چار دیواری میں اس کو کوئی چاہنے والا نہ ہو تو کتنا ظلم ہے اس پر؟

دو بولوں کے بندھن میں باندھ کر کسی کے پَر مت کاٹیں، حق زوجیت کے پرچم بلند کرتے ہوئے آنگن میں اس کے حصے کی روشنی کا راستہ نہ روکیں، شادی نبھانے کا ظرف نا ہو تو کسی کے ساتھ بھونڈا مذاق کر کے زندگی تباہ نہ کریں، اگر رشتے کو خوبصورت نہیں بنا سکتے تو بدصورت بھی مت بنائیں۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر آنے والی اس سب کی حقدار نہیں ہے۔

ایک بار سوچیں گھر بار، اپنا آنگن، اپنے لوگ، اپنا شہر چھوڑنا کیسا لگتا ہے؟
اور پوچھیں خود سے
گھر چھوڑنا بھلا کب آسان ہوتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).