الطاف حسین کا اثر ختم یا برقرار؟


بعض معاملات پر اختلافی نظریہ پیش کرنا شجر ممنوعہ بنا دیا جاتا ہے۔ جب سرخ روس افغانستان میں اپنے فوجی قدم جما رہا تھا تو پاکستان نے خطرے کو رفع کرنے کی غرض سے ایک حکمت عملی تشکیل دی۔ اس وقت اس حکمت عملی سے اختلاف کرنے والوں کو کفر و اسلام کی جنگ میں باطل کا طرف دار ملک دشمن اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔ مگر برسوں بعد آج اسی حکمت عملی کے نتائج کو خود فساد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ سبق سیکھنا چاہیے۔ اسی طرح الطاف حسین کو سیاست میں حصہ لینے کی آزادی پر بات کرنا آج شجر ممنوعہ بنا ہوا ہے۔ نتائج اس کے بھی ہولناک ہو سکتے ہیں۔

میں وضاحت کرتا چلوں کہ راقم الطاف حسین کا مداح نہیں ہے اور ان کی سیاست کی متعدد جہتوں سے شعوری طور پر اختلاف رکھتا ہے مگر کیا ہمارا اختلاف رکھنا ان کے حامیوں سے ان کی پسندیدگی کا حق سلب کر لیتا ہے اور کیا یہ حق کوئی طاقت کے زور پر سلب کر سکتا ہے۔ جواب نفی میں ہو گا۔ الطاف حسین پر پابندی ان کی ایک انتہائی نا پسندیدہ تقریر کے سبب سے ہوئی لیکن کیا ماضی میں اس سے زیادہ ناپسندیدہ اقدامات کرنے والوں سے راہ رسم نہیں بڑھایا گیا؟ کیا سیاست کی اجازت ان کو پاکستان میں حاصل نہیں تھی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔

جی ایم سید مرحوم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک متنازعہ ترین کردار تھے۔ 1973؁ء کے بعد سے وہ اعلانیہ طور پر مکمل علیحدگی پسند ہو چکے تھے۔ جب جنرل ضیاء کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے دوران ریاستی تشدد عروج پر تھا تو جی ایم سید اس تحریک سے لا تعلق تھے۔ کیونکہ اس تحریک کے سبب سے پیپلز پارٹی اپنی جڑیں مزید گہری کرتی جا رہی تھی۔ لیکن اس تشدد سے جنم لینے والی نفرت کو جی ایم سید اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے اقدامات کر رہے تھے۔ انہی سے ایک اقدام اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی کو خط لکھنا تھا کہ وہ سندھ کے معاملات میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

اس خط کے بعد اندراگاندھی نے بھارتی پالیمنٹ میں سندھ کے حالات پر خطاب کیا اور اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا۔ جی ایم سید نے اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں سے بھی رابطہ کیا۔ ایک علیحدگی پسند رہنماء نے الفاظ کا جو چناؤ کیا کیا ہو گا وہ محتاج بیان نہیں۔ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء کے لئے وفاق پر یقین رکھنے والی پیپلز پارٹی سب سے بڑا خطرہ تھی۔ اس لئے وہ ہر جگہ ہاتھ پیر مارتے تھے۔ جی ایم سید سے عیادت کے بہانے ملے، لائبریری دیکھنے کا شوق چرایا یہ وہ دلائل ہیں جو ضیاء جی ایم سید ملاقاتوں کے حلال ہونے کے واسطے دیے جاتے ہیں۔ کونسی عیادت، کیسی لائبریری، ایسی ملاقاتوں کی حقیقت کیا ہوتی ہے۔ سورج کی طرح روشن ہے۔ مختصراً جی ایم سید اپنے نظریات کا پرچار بھی کرتے رہے۔ تنظیم بھی چلاتے رہے اور جنرل ضیاء سے روابط بھی رہے۔ حالانکہ کھلے علیحدگی پسند تھے۔

جنرل مشرف کی آمریت کا آغاز تھا اور وہ اپنے لئے گھوڑے تلاش کر رہے تھے۔ ایسے میں ان کی نظر اجمل خٹک مرحوم پر پڑی۔ ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ اجمل خٹک نے مستقبل میں میاں اظہر کے انجام سے دوچار ہونا تھا یہ ان کے علم میں نہیں تھا۔ انہوں نے جنرل مشرف سے دوستی کے سبب سے اپنی جماعت کو ترک کیا۔ اور سابقہ کالعدم جماعت نیشنل عوامی پارٹی کو بحال بھی کیا۔ ان کی کابل میں کی گئی تقاریر ہمیشہ متنازعہ رہی۔ مزید ان کے حوالے سے تحریر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے صرف اتنا کہ وہ مشرف کی قربت کا دم بھرنے لگے۔

یہ تو ماضی بھی نہیں ہے کہ جب گذشتہ سے پیوستہ برس میں تحریک انصاف نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دی تو حکومت نے حالات کو قابو میں رکھنے کی غرض سے انتظامیہ نوعیت کے اقدامات کیے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کو بھی روکا گیا۔ احتجاج کو روکنے کی غرض سے یہ معمول کے اقدامات تھے مگر موصوف نے تقریر جھاڑ دی کہ ہمیں کاٹا جا رہا ہے۔ کہیں ہم کوئی اور ہی نعرہ نہ لگا دیں۔ نہ ان کی جماعت نے ان کو عہدے سے معزول کیا نہ ہی میڈیا پیچھے پڑا اور نہ ہی ان کے کان پر جوں رینگی۔ جن کے کان پر بغیر وجہ کے بھی جوں رینگتی رہتی ہے۔ اور درج بالا مثالوں میں جوں نہ رینگنے کا واحد سبب اپنے مفادات کے تحت ان افراد کا استعمال تھا۔ یہ سہولت جنرل مشرف کے دور میں الطاف حسین کو بھی حاصل تھی ورنہ ان پر ماضی میں بھی ملک دشمنی کے الزامات لگے مگر مشرف کی آمریت کے دور میں جنرل مشرف کے ساتھیوں نے ماضی کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا۔

الطاف حسین کے حوالے سے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں اثر کھو چکے ہیں۔ اس کا تجزیہ کرنے کے لئے لازمی امر ہے کہ وہ جن وجوہات کی بناء پر لیڈر بنے تھے ان کو پرکھا جائے۔ اس وقت مجھے ان وجوہات کے درست یا غلط کی بحث میں نہیں پڑنا بلکہ ان کو لیڈر ماننے والوں کے جذبات کو بیان کرنا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اس وقت کراچی کی صورتحال کیا تھی؟ ذہنی رجحان کیا تھا؟ یہ تصور بہت مضبوط تھا کہ ہمیں ہماری تعلیم کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں اس طرح سے مواقع میسر نہیں جیسا ہمارا حق ہے۔ کراچی کتنا قومی معیشت میں فائدہ شامل کرتا ہے اس کے اعتبار سے کراچی کو نہیں ملتا۔ کیا آج یہ تصور منہدم ہو چکا ہے؟ نہیں یہ تصور آج بھی جاری و ساری ہے۔

دوسرا یہ تصور تو موجود ہے مگر رائے عامہ الطاف حسین سے متنفر ہو چکی ہے۔ کہ وہ ان حقوق کے لئے مناسب رہنما نہیں۔ شہری سندھ کے کچھ عرصہ قبل کے بلدیاتی نتائج اس کی نفی کرتے ہیں۔ قومی و صوبائی انتخابات میں بھی ان کا سکہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ قومی حلقے کے انتخاب میں تو دوسرے امیدوار کو انگلی پکڑ کر لایا گیا مگر نتیجہ وہی کا وہی رہا۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان سے بڑا لیڈر وہاں پنپ گیا ہے۔ اس پر بحث بھی فضول ہے۔

بات واضح ہے کہ الطاف حسین مائنس نہیں ہوئے۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان کا ستارہ ڈوب چکا ہے تو کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ ان کو کھلے بندوں اپنے حامیون کی حمایت کی اجازت دی جائے۔ ایسے انتخابات منعقد کرائے جائیں جو نہ صرف منصفانہ ہوں بلکہ منصفانہ ہوتے ہوئے نظر بھی آئیں تا کہ ان کو ریاستی طاقت کی بجائے رائے عامہ کی مصدقہ مہر سے سیاست بدر کر دیا جائے۔

اب ایک بدترین منظر کی جانب بڑھتے ہیں کہ الطاف حسین پر اس طرح پابندی عائد رہتی ہے اور وہ وہاں سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر ڈالتے ہیں۔ نتیجہ کیا ہو گا؟ اگر شہری سندھ میں 50% رائے دہندگان حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور اس اعلان کے نتیجے کے طور پر ان میں سے آدھے سے زائد رائے دہندگان گھر بیٹھے رہتے ہیں تو ایسی صورت میں صرف 15/20 فیصد ووٹ پڑیں گے اور دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ علیحدگی پسند رہنماء کی کال پر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے 80% عوام نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ کیا ہم ایسی کوئی بدترین صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ جملہ معترضہ ہے کہ ویسے ہی بلوچستان جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ اپنے حلقے سے ایک فیصد ووٹ لے کر آئے ہوئے ہیں۔ آخر دنیا کی سامنے کیا پیغام جائے گا۔

اس صورتحال سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ الطاف حسین اور ان کے حامیوں کو ماضی کی مانند سیاسی آزادیاں از سر نو مہیا کر دی جائیں۔ وہ 22 اگست کی اپنی تقریر کے بعد قولاً اور تحریراً معافی مانگ چکے ہیں۔ وہ تمام دلائل جو جی ایم سید سمیت دیگر افراد کے سیاست میں متحرک رہنے کے لئے دیے جاتے ہیں ویسے ہی الطاف حسین کے لئے بھی تسلیم کر لئے جائیں تا کہ ان کے ووٹروں کو بھی احساس ہو کہ ان کا لیڈر اس گفتگو پر کتنا پشیمان ہے اور یہ پشیمانی کا احساس وفاق کو مزید مضبوط کرے گا۔ اگر شہری سندھ پر کوئی مصنوعی قیادت مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج عبرت ناک ہو سکتے ہیں۔ کاش فیصلہ ساز عبرت پکڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).