کیا ناقابل علاج مریض کی زندگی ختم کرنا درست ہے؟


(یوتھینیزیا، جس کے لئے اردو میں قتل رحم جیسی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں، پر گذشتہ کچھ برسوں میں کافی کچھ لکھا بولا گیا ہے۔ لاعلاج اذیت سے تڑپنے والے کو اس کی خواہش پر، اذیت سے نجات کی خاطر زندگی کا خاتمہ کرنا یوتھینیزیا کہلاتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کو گذشتہ دنوں یوتھینیزیا کی قانونی حیثیت طے کرنے سے متعلق ایک مقدمے کا سامنا ہوا۔ عدالت نے تفصیلی سماعت کے بعد بالواسطہ یوتھینیزیا کو مشروط اجازت دینے کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا۔ البتہ عدالت نے واضح کر دیا کہ بلا واسطہ یوتھینیزیا غیر قانونی ہی رہے گا اور خودکشی یا قتل کے زمرے میں آئے گا۔ عدالت نے تین سو صفحات سے زیادہ کے اپنے فیصلہ میں یوتھینیزیا کے تصور پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ہم سب کے باذوق قارئین کی دلچسپی کے لئے میں نے اس کے متفرق حصوں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یوتھینیزیا کے تصور کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یاد رہے کہ یہ کسی ایک ٹکڑے کا ترجمہ نہیں بلکہ الگ الگ ٹکڑوں کا ترجمہ ہے۔ اس ترجمہ کا ایک حصہ یہاں پیش خدمت ہے۔
مالک اشتر )

حیات اور موت نے بطور تصور اپنی تفہیم کے لئے بہت سے مفکرین، فلاسفہ، اہل قلم اور فزیشین کی توجہہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ کئی مرتبہ ان دونوں تصورات کو مختلف رنگ اور دھنک میں مصور کرنے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ سوامی ووینکانند چاہتے ہیں کہ ہم سمجھیں کہ زندگی ایک چراغ کے مانند ہے جو مسلسل جل کر صرف ہوتا جا رہا ہے، وہ آگے بتاتے ہیں کہ جو کوئی بھی زندگی چاہتا ہے اسے اس کے لئے ہر لمحہ مرنا ہوگا۔ انگریزی کے شاندار ادیب جان ڈرائی ڈن زندگی کو ایک دھوکے سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان اس فریب کو ترجیح دیتا ہے۔
زندگی میں ایسا مرحلہ بھی آتا ہے جب زندگی میں بہار ختم ہو جاتی ہے، زندگی میں روانی کی برسات سوکھے میں بدل جاتی ہے، جسم کی حرکت ساکت جاتی ہے، زندگی کی قوس قزح بے رنگ ہو جاتی ہے، لفظ زندگی جسے زمان و مکان کے درمیان رقص کہا جاتا ہے وہ ٹھہر جاتی ہے، دھندلانے لگتی ہے اور موت کی ناقابل انکار حقیقت نزدیک آکر اسے آکٹوپس کی طرح اپنے بازوو ¿ں کے جال میں کس کر جکڑ لیتی ہے تاکہ وہ انسان پھر کبھی نہ اٹھ سکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی شخص کو درد اور مصیبت سے مستقل اور لادوا اذیت میں مبتلا رہنے دیا جانا چاہیے؟ سوال یہ ہے کہ کیا اسے بلا درد دیے، احترام کے ساتھ زندگی کے دروازے عبور کرکے موت کی اندھیری گپھا میں جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ روشنی ہے۔

ہر شخص اچھی صحت اور ہر قسم کی خوشیوں سے بھری زندگی کا خواہاں ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ کوئی بھی شخص یہ بھی نہیں چاہتا کہ جب اس کی زندگی اختتام کی طرف آئے اور وہ موت سے ملاقات کرنے والا ہو اس وقت کوئی تکلیف، مصیبت یا اذیت ہو۔ نوجوان شہزادے سدھارتھ کے لئے یہ ناقابل برداشت ہو گیا جب انہوں نے پہلی مرتبہ یک شخص کو بڑھاپے کی دشواریوں میں گرفتار اور ایک جنازے کو لے جائے جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنی زندگی میں ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے اور نروان کے طالب تھے، جس کے بعد دنیا ان کو نہ ٹھکرا سکے اور وہ حیات کے حقیقی مقصد کو پالیں، ایک ایسی زندگی حاصل کر سکیں جو ثمرآور ہو اور اس دنیا سے وداعی کا سفر پرسکون گزرے۔ انہوں نے کامیابی سے زندگی کا یہ مقصد حاصل کرلیا اور گوتم بدھ بن گئے۔
زندگی فانی ہے، یہ بے ثبات ہے۔ یہ کسی اور شئے ہی کی طرح نازک ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کوئی انسان، یا مخلوق ہمیشہ نہیں رہنے والی۔ ہر یک مخلوق جس نے اس دھرتی پر جنم لیا ہے اس کو ایک دن مر جانا ہے۔ زندگی کا ایک محدود دورانیہ مقرر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سب کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کوئی اپنی زندگی کا المناک انجام نہیں چاہتا۔ ہم سب دنیا میں پرسکون ڈھنگ سے رہنا چاہتے ہیں، اس طرح بات آتی ہے یوتھینیزیا کی، جس کی جڑیں، یونانی زبان میں ہیں اور جس کا مطلب ہے آسان اور باعزت موت۔

یہ جاننا دلچسپ ہے کہ بھارت میں یوتھینیزیا پر پہلی بحث 1928 میں ہوئی، یہ اب تک معلوم حقائق کے مطابق اس موضوع پر پہلا عوامی مباحثہ تھا۔ گاندھی جی کے آشرم میں ایک بچھڑا شدید تکلیف میں مبتلا تھا۔ ہر ممکن علاج اور طبی مدد کے باوجود اس کی حالت اس قدر خراب تھی کہ وہ اپنا پہلو تک نہیں بدل سکتا تھا، حتیٰ کہ اپنے پھوڑوں اور زخموں کے سبب کھڑ ے ہونے کی بھی تاب نہ رکھتا تھا۔ اس سلسلہ میں جس سرجن کا مشورہ لیا گیا اس نے بھی مایوسی کا اظہار کیا۔ ہچکچاہٹ اور گوسیوا سنگھ اور آشرم میں رہنے والوں سے مشاورت کی صبرآزما مدت کے بعد گاندھی جی نے بچھڑے کی زندگی ہرممکن کم تکلیف دہ ڈھنگ سے ختم کرانے کا ارادہ کر لیا۔ ممکنہ طور پر یوتھینیزیا اور جانوروں کے یوتھینیزیا پر یہ پہلی عوامی بحث تھی جس میں انسانی یوتھینیزیا پر بھی بات ہوئی۔ یہ بھی برابر کی دلچسپ بات ہے کہ گاندھی جی اور ان کے ناقدین نے زندگی کو بلا درد انگیز طریقے سے ختم کرکے اذیت سے نجات دلانے کے معاملہ پر یہ پوری بحث یوتھینیزیا اصطلاح استعمال کیے بغیر کی، حالانکہ ان کا مقصود وہی تھا۔

مہاتما گاندھی نے کہا کہ، ”ان حالات میں مجھے لگتا ہے کہ انسانیت تقاضہ کرتی ہے کہ اذیت کو ختم کرنے کے لئے زندگی کو ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ معاملہ پورے آشرم کے سامنے رکھا گیا، پوری بحث میں قتل کے تصور کی مخالفت ہوئی ہر چند کہ اس کا مقصد تکلیف کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو۔ مخالفین کا استدلال تھا کہ کسی کو زندگی لینے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ زندگی دے نہیں سکتا۔ مجھے یہاں یہ دلیل بے جا لگی۔ یہ دلیل اس وقت مناسب تھی جبکہ زندگی لینے کا مقصد کسی ذاتی مفاد کی تکمیل ہو۔ آخرکار، ہر ممکن دردمندی اور واضح ہدف کو پیش نظر رکھ کر، میں نے اپنی موجودگی میں ایک ڈاکٹر کو بلایا تاکہ وہ بچھڑے کی زندگی ختم کرکے اسے تکلیف سے نجات دلائے“۔

فلسفیانہ اعتبار سے (یوتھینیزیا پر)یہ بحث ہمارے حقوق سے متعلق ہے کہ جب بری طرح بیمار شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کیسے مرنا ہے؟ یا ہم کتنی اذیت برداشت کریں، کب مریں اور کیسے مریں پر کنٹرول کے حق سے متعلق ہے۔ یہ یسے نظام میں موت کے عمل پر کچھ کنٹرول حاصل کرنے سے متعلق ہے، جو تکنیک کی مدد سے زندگی کو لمبا کھینچ سکتا ہے۔ قسمت سے، ہم ایسی بھی تکنیک رکھتے ہیں جو ہمیں اپنی شرائط پر ایک باوقار موت منتخب کرنے کا متبادل فراہم کرتی ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter