جوتا اور روشنائی کہیں کسی بڑی فلم کا ٹریلر تو نہیں؟


اچانک کمرے میں ایک آواز ابھری۔ “آج میں جارج بش جیسا لگ رہا ہوں۔ آج مجھے کوئی جوتا نہ مارے۔” اور پل بھر میں کمرہ کشت زعفراں بن گیا۔

یہ اٹھارہ جنوری 2009 کا دن تھا۔ ایک دن پہلے ہم نے اپنی بہن کو رخصت کیا تھا اور اب دعوت ولیمہ پر جانے کی تیاری گھر میں جاری تھی۔ قدرتی طور پر گھر میں اداسی کا راج تھا۔ اس اداسی سے تقریباً سب لوگ ہی واقف ہیں۔ بچپن سے ایک ساتھ پلنے بڑھنے والے بہن بھائیوں میں جتنا پیار ممکن ہوتا ہے اتنا ہی پیار ہم بہن بھائیوں کے بیچ بھی ہے۔ ہم چار بھائیوں کی دو بہنیں ہیں۔ ایک تو پیدائشی جسمانی معذوری کا شکار ہے جبکہ دوسری بہن کی شادی سترہ جنوری 2009 کو ہوئی۔ عمر میرا چھوٹا بھائی ہے اور بلا کی حس مزاح رکھتا ہے۔ ہمارے گھر میں تاریخی حیثیت اختیار کر جانے والا یہ جملہ اس دن ٹائی باندھتے ہوئے اسی نے ادا کیا تھا۔

یہ واقعہ آج نواز شریف صاحب پر جوتا پھینکے جانے والے واقعے سے یاد آ گیا۔ پاکستان کی سیاست میں روز بروز تلخی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا آغاز عمران خان صاحب کی زبان مبارک سے ہوا۔ ان کے شیریں دہن سے برآمد ہونے والے انگارے پاکستان کی سیاست میں اخلاقیات کا ایک نیا رخ متعارف کروا گئے۔ نوجوان نسل عمران خان کی دیوانی تھی چناچہ شیریں کلامی کے پھول نوجوانوں نے پلکوں سے چننے شروع کر دیئے اور بقول پروین شاکر “کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی ۔ اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی۔” کے مصداق اعلیٰ اخلاقیات پر مبنی افکار کی ترویج شروع کر دی۔ بھلا تحریک انصاف کوئی کام کر رہی ہو اور مسلم لیگ ن پیچھے رہ جائے ایسا کیسے ممکن ہے۔ چناچہ مسلم لیگ ن کے نوجوان بھی خم ٹھونک کر میدان کارزار میں اتر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر الفاظ کے شعلے جا بجا بھڑکنے لگے۔ سوشل میڈیا کے ہتھیار سے مسلح سوشل میڈیا ٹیموں نے فن بدزبانی میں عروج حاصل کرنے کی مہم شروع کر دی۔

نواز شریف صاحب کے اخلاق کی قوم گواہ ہے۔ بدترین حالات میں بھی نواز شریف صاحب اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں مگر پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے عمران خان کی جانشینی اختیار کی اور بلا لحاظ ملکی اداروں پر تنقید شروع کر دی۔ رفتہ رفتہ ان کی زبان زہریلی ہوتی چلی گئی۔ مریم نواز صاحبہ نے جب میدان سنبھالا تو عمران خان کو اپنا رول ماڈل بنایا اور عدلیہ پر حملے شروع کر دیئے۔ عمران خان بھی کب رکنے والے ہیں انہوں نے بھی اپنی توپوں کے کشادہ دہانے مزید کھول دیئے اور لفظی گولہ باری میں شدت آ گئی۔ اور اس کا منطقی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکل رہا ہے۔

کل ایک اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف پر روشنائی پھینک دی گئی اور آج نواز شریف پر جوتا اچھال دیا گیا۔ قطع نظر اس کے کہ ان دونوں واقعات کی ذمہ داری مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے قبول کی اور وجہ ختم نبوت والی شق میں ترمیم بیان کی۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان حالیہ دنوں میں نواز شریف اور مسلم لیگ ن پر ختم نبوت کے حوالے سے خاصی تنقید کرتے آ رہے ہیں۔ ایسے میں عوام کے جذبات کا بھڑک اٹھنا قدرتی امر ہے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ان واقعات میں محض روشنائی اور جوتا ہی پھینک مارے گئے۔ خدانخواستہ کسی مہلک ہتھیار سے حملے کیے جاتے تو قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا تھا۔

دوسری طرف نواز شریف صاحب کے لیے بھی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ پاناما کیس میں نا اہلی سے لے کر آج سے پہلے تک وہ صرف مسلم لیگ ن کے جلسوں میں عوام کی عدالت سے اپنے حق میں فیصلے کرواتے رہے ہیں۔ آج پہلی مرتبہ وہ اس عوام کی عدالت میں پیش ہوئے جو ان کی فکر سے متاثر نہیں ہے بلکہ وہ ان کے فکر ی متاثرین میں سے ہے۔ نتیجہ جوتے کی صورت سامنے آیا ہے۔ نواز شریف صاحب کو اب عوامی عدالت بھی چنیدہ رکھنی پڑے گی ورنہ ایسا نہ ہو کہ غیر جانبدار عوامی عدالتیں اپنے فیصلے اسی طرح دینا شروع کر دیں۔

مگر اس سب سے زیادہ تشویش ناک وہ خبر ہے جس میں انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے عمران خان کو اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے اور مؤثر حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خواجہ محمد آصف اور نواز شریف پر روشنائی اور جوتا پھینکنا محض ٹریلر ہوں اور اصل فلم عمران خان پر چل جائے؟ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ اپنے مخالفین کے کسی بھی قیمت پر نیچا دکھانا سیاسی لوگوں کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر تمام سیاسی راہنما مل کر بیٹھ جائیں اور سیاست میں در آنے والی حد سے زیادہ تلخی کا سد باب کریں۔ آنے والی نسلوں کو نفرت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔ سیاسی عداوتیں جب ذاتی عداوتوں میں تبدیل ہو جائیں تو قوم کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔ بے چاری قوم پر رحم کی اپیل ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad