پروین رحمان: ایک درویش عورت کی موت


سب ہی مر جاتے ہیں کہ ہر ذی روح کا انجام موت ہے۔ وہ بھی کہ جو پوری زندگی دولت کی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں، حتی کہ قبروں تک جا پہنچتے ہیں اور وہ بھی کہ جو حق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے جان وار دیتے ہیں۔ پروین رحمن نے بھی انسانیت کی بقا کی خاطر موت کو گلے لگایا، لیکن وہ مری نہیں، ماری گئی تھیں اور ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کچی آبادی کے غریب مگر عزت دار مکینوں کے حقوق کے لئے نہ صرف مختلف قسم کے مافیا گروپوں کے سامنے سینہ سپر تھیں بلکہ انہیں’’اپنی مدد آپ‘‘ کے اصول کے تحت جینا اور زندگی برتنا سکھا رہی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اس جنگ میں جان بھی جا سکتی ہے۔ جب ہی تو ایک بہادر شیرنی کی طرح، گیڈر صفت مافیا گروپ کے سامنے یہ کہنے کی جرات رکھتی تھیں کہ

تم یہ ہی کر سکتے ہو کہ ہمیں مار دو۔۔۔۔ اس کے علاوہ اور کر بھی بھی کیا سکتے ہو؟ مار دو کہ ہم تم سے خوفزدہ نہیں۔۔۔۔  (انٹرویو 2011)

بالآخر بدھ 13 مارچ 2013 کو بزدل نقاب پوشوں نے فائرنگ کر کے ان کی جان لے لی۔ پروین نے جان کی بازی تو ہار دی مگر ساتھ ہی ظلم کے خلاف اپنے پیغام کی ہزاروں شمعیں روشن کر دیں۔ پروین رحمن ملک کی مشہور سماجی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز اور مثالی استاد بھی تھیں۔ وہ پاکستان کے سب سے کامیاب نان پرافٹ ادارے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ (OPP)  کی سربراہ تھیں کہ جو کراچی کے شمال مغربی علاقے میں واقعہ کچی آبادی اورنگی ٹاؤن کے پندرہ لاکھ مکینوں کی معاشی، تعمیراتی اور سینیٹری منصوبوں سے تعاون کرتا ہے۔ اورنگی ٹاؤن جنوب مغربی ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ ’’اپنی مدد آپ ‘‘کے اصولوں پر عمل پیرا، ان گھروں کے مکینوں نے او پی پی کے تعاون سے زیرِ زمین سیوریج لائنیں، گھروں میں لیٹرین بنانے کے علاوہ حکومت اور عوام کے باہمی تعاون سے علاقہ میں 650 پرائیویٹ اسکولز، سات سو میڈیکل کلینکس اور چالیس ہزار گھریلو سطح پر ہونے والے کاروبار نے بھی فروغ پایا کہ جس کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن کے ساٹھ فیصد افراد اپنی کفالت میں خود پہ انحصار کرنے کے قابل ہوئے۔

پروین اپنے تجربے کی بنا پر اورنگی ٹاؤن کے مکینوں کو مثالی لوگ قرار دیتی تھیں۔ وہ اس ادارے سے 1982 سے وابستہ تھیں۔ 1957 میں ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں پیدا ہونے والی پروین 1970 میں سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے وقت اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئیں۔ کراچی کے داؤ کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے 1981 میں گریجویشن کیا جس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف ہاوسنگ اسٹڈیز ان روٹرڈیم ، نیڈر لینڈ سے ہاؤسنگ تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور بڑی فرموں میں کام کرنے کی بجائے بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔

نوبل پرائز نامزد اختر حمید خان (1914 ۔ 1999) کا کام پاکستان کی تاریخ میں دیہی علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پوری دنیا میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ خاص کر کومیلا رولر اکیڈمی اور کومیلا پروجیکٹ (بنگلہ دیش) کے حوالے سے۔ ان کی پیش کردہ مائیکرو کریڈٹ اسکیم نے غربت کے خاتمہ کے لئے دنیا بھر میں مقبولیت کی سند حاصل کی۔ پروین نے 1982 میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔ اور جلد ہی اپنی جانفشانی، دردمندی اور فرض شناسی کی بدولت ادارہ کی جوائنٹ ڈائریکٹر بنا دی گئیں۔ ان کے سپرد ہاؤسنگ اور سینی ٹیشن کے پروگرامز تھے۔ تاہم 1999 میں اختر حمید خان کے انتقال کے بعد وہ پورے ادارے کی نگرانی پہ مامور کر دی گئیں۔ باوجود اتنے بڑے ادارے کی نگران کے وہ ایک معمولی مکان میں اپنی ماں کے ساتھ قناعت پسندی سے رہتیں انہوں نے پیشہ ورانہ مہارت کو اپنے لیئے پر تعیش زندگی بسر کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا۔ وہ ادارے سے صرف بتیس ہزار روپے تنخواہ لیتی تھیں۔ جبھی ڈاکٹر حمید خان نے انہیں “درویشنی‘‘ کا لقب دیا تھا۔ کیونکہ پروین نے اپنی ضروریات محدود کر کے درویشانہ زندگی اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی انہیں ’’باجی‘‘ تو کبھی’’کراچی کی ماں‘‘ کا لقب دیا ۔

آخر پروین کو کیوں مارا گیا؟ کسی بھی ایسے سماج میں جہاں بدعنوانی، لاقانونیت اور حق تلفی کا راج ہو، وہاں سماجی انصاف کے حصول اور حق کی علمبرداری کی اجلی صبح کا خواب دیکھنا ہی سب سے بڑا قصور ہے۔ پروین بھی ایسے ہی خوابوں کی صورت گر تھی۔ ان کا قصور محض یہی نہ تھا کہ وہ جانفشانی سے اورنگی کے غریب مکینوں کے ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ تھیں بلکہ بطور مثالی استاد وہ سماج کے افراد کی تعلیمی اور فکری تربیت میں بھی مصروف تھیں کہ کس طرح اعداد و شمار جمع ہوتے ہیں اور دستاویزات تیار ہوتی ہیں اور کس طرح اپنے جائز حقوق کے لئے شواہد اکھٹا کیئے جاتے ہیں۔

یہ حقوق اراضی (زمین)اور پانی جیسی نعمت کے تھے۔ جو گھروں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن کس طرح قبضہ گروپ اس حق کو چھینتے ہیں۔ جرائم پیشہ، زمین مافیا اور پانی مافیا کے خلاف تحقیق کے کام کا مطلب ان مافیا گروپوں کے لئے کروڑوں روپوں کا نقصان تھا۔ ان گروپوں کو مختلف سیاسی جماعتوں مثلا پی پی پی، اے این پی، ایم کیو ایم وغیرہ کی پشت پناہی کے علاوہ غیر قانونی کاموں کے حصول کے پولیس رینجرز اور دوسرے سرکاری اداروں کا تعاون حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مافیا گروپوں نے غریب عوام سے بھتہ لینے کی قبیح عادت سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ پروین اس کرپٹ نظام کو بدلنے کی خواہش ہی نہیں رکھتی تھی بلکہ اس پر سالہاسال سے دیوانہ وار کام بھی کر رہی تھی۔ اپنی موت کے وقت وہ 500گوٹھوں (دیہاتوں) سے اعداد و شمار اکھٹا کر رہی تھی تاکہ وہ چہرے ننگے ہو سکیں جو من مانے داموں دوسری کاروباری پارٹیوں کو بیچ دیتے تھے ۔ ان کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ پندرہ برس کے عرصہ میں پندرہ سو گوٹھ جو کراچی کے نواح میں واقع ہیں ، لینڈ مافیا ان کو پلاٹوں میں تقسیم کر کے کروڑں روپے کماتے ہیں اور یہ اراضی ان کے جائز مالکو ں کے جعلی کاغذات بنا کر قبضہ کر لی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹینکرمافیا کی بھی اتنی ہی مخالف تھیں جو ٹیوب ویل کا پانی کم آمدنی والی آبادیوں سے چرا کر انہی لوگوں کو واٹر ٹینکس کی صورت میں بیچ رہے تھے ۔ پروین کے ادارے کی تحقیق، دیانت اور سچائی اس نظام کے لئے چیلنج تھے۔ وہ غریبوں کے حقوق کے لئے تمام غنڈہ عناصر کے سامنے بے خوفی سے سینہ سپر تھیں۔ پورے شواہد سے لیس۔۔۔۔

ان کے قاتلوں کو علم تھا کہ خالی بینک بیلنس کے باوجود پروین ہزاروں دلوں پہ راج کر رہی ہیں۔ لہذا بھرے مجمع کی بجائے بزدل نقاب پوش کو انہیں مارنے کی ہمت اس وقت ہوئی جب وہ کام کے بعد اپنی کار میں واپس لوٹ رہی تھیں۔ یہ علاقہ بنارس پل اورنگی کا تھا جو اے این پی کے زیراثر ہے۔

انہیں مارنے والے یہ بھول گئے تھے کہ وہ اپنے نام ’’پروین رحمن‘‘ کا استعارہ تھیں۔ ’’ستاروں کے جھرمٹ کا نور‘‘ جو تمام انسانیت پر یکساں اترا۔ جسے اس درویشنی نے اس طرح بانٹا کہ ان کے چاہنے والے تو ان کی محبت، شفقت اور دانائی کو روئیں گے مگر وہ بھی سر پکڑ کر اپنی شکست پر نوحہ کناں ہوں گے کہ جنہوں نے بزدلی سے ان کی موت کا سامان کیا۔ کیونکہ خاکی جسم کی ہلاکت سے اس کا نور فنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی شعاؤں کا اثر مزید پھیل جاتا ہے، بہت دور تلک۔ حق و انصاف کی تلاش میں۔۔۔۔۔

(سماجی کارکن پروین رحمن کی پانچویں برسی کے موقع پر جنہیں 13 مارچ 2013ء کو نامعلوم دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا تھا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).