چیئرمین سینٹ، پی پی پی اوراسٹیبلشمنٹ کا تال میل


سینٹ الیکشن کے بعد اب سب کی نظریں اس جوڑ توڑ پر مرکوز ہیں جو اپنی سوچ سے ہم آہنگنہیں بلکہ اپنے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے تحفظ میں کارآمد ثابت ہونے والاچیئرمین سینٹ بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینٹ بنانے کی تجویز کوجب مسلم لیگ ن کی طرف سے نیک نیتی پر مبنیپیشکش کہا گیا تو اس ’’ نیک نیتی‘‘ کا کھرا ناپتے ہوئے آصف علی زرداری نے جواب دیا یہ نیک نیتی اس وقت کہاں تھی جب انہوں نے ممنون حسین کی بجائے رضا ربانی کو صدر پاکستان بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اصول پرستی اور نیک نیتی کا مقام بلا شبہ اعلیٰ و ارفع ہے مگر یہ اجناس اس وقت ہمارے معاشرے میں عمومی اور میدان سیاست میں خصوصی طور پر مفقود ہیں ۔ اس لیے اگر کوئی اپنے خاص مفادات کے حصول کے لیے کسی کی نامزدگی کو اصول پرستی اورنیک نیتی کا نام دے رہا ہے تو اس کی ایسی باتوں کو زبانی جمع خرچ سے زیادہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔یاد رہے میاں رضا ربانی طویل عرصہ سے سینٹ کے رکن چلے آرہے ہیں۔ہر سیاسی پارٹی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کرے۔ شاید اسی پالیسی پر چلتے ہوئے آصف علی زرداری نے رضا ربانی کی سینٹ میں موجودگی کے باوجود مارچ 2009 میں ان کی بجائے فاروق ایچ نائیک کو چیئرمین سینٹ بنایاتھا۔ اس کے بعد رضا ربانی کو فراموش نہیں کر دیا گیا تھا بلکہ ان سے 18 ویں ترمیم کی تشکیل کا اہم کا لیا گیا تھا۔ اسی طرح فاروق ایچ نائیک سینٹ کا حصہ تھے مگراگلی مدت کے لیے ان کی جگہ نیئر بخاری کو چیئرمین سینٹ بنا دیا گیا تھا ۔ فاروق ایچ نائیک کے مارچ 2012 میں چیئرمین سینٹ کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد اپریل 2012 میں انہیں وزیر قانون بنایا گیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے تک وہ اسی عہدے پر کام کرتے رہے۔ اس دوران بھی آصف علی زرداری نے رضاربانی سے بلوچستان پیکیج کی تیاری جیسا اہم کام لیا تھا۔ اس کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی تو پھر پیپلز پارٹی نے مارچ 2015 میں رضا ربانی کو چیئرمین سینٹ بنایا ۔ یاد رہے اس وقت بھی مسلم لیگ ن رضاربانی کو چیئرمین سینٹ قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھی ۔ رضاربانی کو چیئرمین سینٹ بنانے کے لیے آصف علی زرداری نے خاص کوششیں کرتے ہوئے جب ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ مولانا فضل الرحمٰن کی جھولی میں ڈال کر ووٹوں کی مطلوبہ تعداد پوری کر لی تو پھر ہی مسلم لیگ ن اس عہدہ کے حصول کی دوڑ سے ستبردار ہوئی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اس رضا ربانی کا نام چیئرمین سینٹ کے لیے قبول کیوں نہیں کر رہے جنہیں انہوں نے خاص کوششوں کے بعد چیئرمین سینٹ بنوایا تھا اور وہ میاں نواز شریف ان پر کیوں فدا ہوئے جارہے ہیں جنہوں نے 2015 میں ہر ممکن کوشش کی تھی کہ وہ چیئرمین سینٹ نہ بنیں۔ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ میاں رضا ربانی ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میچ میں بک کرکٹ کھیلتے ہیں۔ بک کرکٹ کھیلتے ہوئے وہ اپنے لیے تو ماہرین سے ڈھیروں داد وصول کر لیتے ہیں مگر اس ٹیم کے متعلق کبھی سوچتے ہی نہیں جس کے رکن کے طور پر وہ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور بحیثیت چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی کی کارکردگی کا کوئی موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بغیر ایاز صادق بنے میاں رضا ربانی جس حد تک اپنی پارٹی کے سیاسی مفادات کا خیال رکھ سکتے تھے انہوں نے کبھی نہیں رکھا۔میاں رضا ربانی اگر کتابی کرکٹ کو تھوڑی دیر کے لیے پس پشت ڈال دیتے تو مسلم لیگ ن کے لیے ایک ووٹ کی اکثریت سے انتخابی اصلاحات کا بل سینٹ سے پاس کروانا ممکن نہ ہو پاتا۔ یاد رہے اس بل کی سینٹ سے منظوری کے بعد ہی قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کے باوجود میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن کا صدر بننے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں جن لوگوں کو پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ کا تال میل عجیب اور ناگوار نظر آرہا ہے ان کے لیے عرض ہے کہ جو حالات اب ہیں ایسے حالات میں پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ پہلے بھی ایک صفحے پر نظر آچکے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوا تھا جب میاں نواز شریف نے خود کو امیر المومنین بنانے کے لیے 15 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی کوشش کی تھی۔ ویسے تو 15 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے شریعہ کے نفاذ کو جواز کے طور پر پیش کیا گیا تھا مگر اس کا درپردہ مقصد میاں نواز شریف کو مطلق العنان حکمرانی کے اختیارات سے لیس کرنا تھا۔ 15 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں دیگر باتوں کے ساتھ یہ بھی درج تھا کہ وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ شریعت کی رو سے کسی بھی بات کو جائز سمجھ کر نافذ اور ناجائز سمجھ کر ممنوع قرار دے سکے اور اس کا یہ اقدام نہ تو کسی عدالت میں چیلنج ہو سکے گا اور نہ کوئی جج اس کے خلاف فیصلہ کر سکے گا۔ اس کے علاوہ سول عدلیہ اور فوجی اہلکاروں میں کسی قسم کی تفریق کیے بغیر یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کو کسی بھی ریاستی اہلکار کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہو گا۔ میاں نواز شریف کی ذات کواعلیٰ و ارفع قرار دینے والی مذکورہ آئینی ترمیم 28 اگست1998 کو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جس کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ اعلیٰ فوجی قیادت نے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ یہ آئینی ترمیم 9 اکتوبر 1998 صرف پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی سے 16 کے مقابلے میں151 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کرا لی گئی تھی ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کے ارکین نوازشریف کا اتحادی ہونے کے باوجود اس ترمیم کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دینے کی بجائے ایوان سے غیر حاضر رہے تھے۔ اس آئینی ترمیم کی منظوری سے دو روز قبل7 اکتوبر 1998 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگر کرامت کو ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔تہذیب کے ارتقا کے سفر میں معاشرے کو صدیوں پیچھے دھکیلنے والی اس آئینی ترمیم کی سینٹ سے منظوری پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کی مخالفت کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکی تھی۔

آج پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں جو تال میل نظر آرہا ہے اس کی نوعیت 1998 سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج بھی کل کی طرح ایک فریق کی طرف سے جائز یا ناجائز طریقے سے میاں نواز شریف کی ذات کو ہر قسم کے احتساب سے مبرا قرار دینے اور دوسرے فریق کی طرف سے ہر حربہ آزماتے ہوئے اس عمل کو ناکام بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔اس صورتحال میں مختلف الخیال لوگوں کے درمیان جو تال میل چل رہا ہے اس میں شاید کتابی سیاست کرنے والے کسی چیئرمین سینٹ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).