انتخابات بروقت ہوتے نظر نہیں آ رہے


نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے خوش فہم پرستاروں کو جانے کیوں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ”مجھے کیوں نکالا؟“ کے بیانیے کی مقبولیت نے نواز شریف کے مخالفین کو ناراض کر دیا ہے اور شاید مجھے احتیاط ًیہ بھی لکھ دینا چاہئے کہ موصوف کی مخالفت فقط سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں بھی شکایات ان کے خلاف طولانی ہیں۔

جلسوں،جلوسوں اور سوشل میڈیا پر لگائی رونق سے لاہور، چکوال اور لودھراں کے ضمنی انتخابات جیت لئے گئے۔ طے ہوگیا کہ آئندہ عام انتخابات تک یہ ماحول برقرار رہا تو اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں نواز شریف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اسمبلیوں سے باہر رکھنا ناممکن نہ سہی تو بہت مشکل ضرور ہو جائے گا۔ واضح اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں لوٹنے کے بعد نون لیگ اپنے ”تاحیات قائد“ کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے سیاسی اور قانونی اعتبار سے ٹھوس اقدامات لینے کو مجبور ہو جائے گی۔ اداروں کا ٹکراﺅ اس صورت میں شدید تر ہوجائے گا۔

انتخابی سیاست بنیادی طور پر بیانیے کا کھیل ہے۔ صحافت ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ”آزاد“ ہونے کی دعوے دار ہے۔ ہمارے کالم نگاروں اور اینکرخواتین وحضرات کی بے پناہ اکثریت کرپشن کے خلاف جہد مسلسل میں مصروف بھی نظر آتی ہے۔ خلقِ خدا کو مگر نوازشریف کے حوالے سے وہ اپناہم خیال نہیں بنا پائے۔ عوام ہمارے ایک بار پھر ”سادہ لوح“ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس سادہ لوحی کو محض کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ختم کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔

ریاست کے دائمی اداروں کو کسی نہ کسی طور قدم بڑھا کر جمہوریت کو ”چوروں اور لٹیروں“ سے بچانا ہوگا۔

اسی باعث میں بروقت انتخابات ہوتے نہیں دیکھ رہا۔اپنے اس خدشے کا اظہارکرتا ہوں تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔طعنہ ملتا ہے کہ جنرل ضیاءکے دور میں صحافت کا آغاز کرنے والے کئی صحافیوں کی طرح میں ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہوں۔ 2018 ءمیں وہ ماحول نہیں جو 1977 ءاور 1999 ءمیں موجود تھا۔ جمہوریت اس ملک میں اب مستحکم ہوچکی ہے۔

”آزاد صحافت“ نے لوگوں کو بہت باشعور بنا دیا ہے۔ ریاست کے دائمی اداروں کے لئے اب اپنی پسند کا سیاسی منظر نامہ مسلط کرنا ممکن نہیں رہا۔ بلوچستان اسمبلی میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل تھی۔ وہاں ”گیم“ لگانا آسان تھا۔ اسی گیم کو سینٹ کے انتخابات کے دوران دہرانا مگر ممکن نہیں رہا۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے پنجاب میں 12 امیدوار کھڑے کئے۔ ان میں سے سوائے ایک کے سب کامیاب ہوگئے۔ایوانِ بالا میں نواز شریف کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی ”مناسب“ چیئرمین منتخب کروانا بھی ممکن نہیں رہا۔

چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے لئے نواز مخالف کیمپ کو درپیش مشکلات نے میرے وہمی دماغ کو لیکن مزید خوفزدہ بنا دیا ہے۔بلوچستان کے ”احساس محرومی“ کو بنیاد بناکر ”ایک زرداری….“ اور عمران خان صاحب کے درمیان اتحاد کی کوشش ہوئی۔ اپنی ”پارسائی“ کے تحفظ کی خاطر تحریک انصاف مگر اس ضمن میں کھل کر کھیل نہ پائی۔ پیپلزپارٹی نے رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کی تذلیل کرتے ہوئے اپنی Core Constituency کو شدید مایوس کیا۔بات پھر بھی بن نہیں پائی۔
نواز شریف کو صرف سیاسی چالوں سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی روکنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔ گھی کو شاید اب ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنے کی ضرورت ہے اور میری دانست میں ٹیڑھی انگلیوں کا استعمال شروع ہونے ہی والاہے۔جب یہ استعمال ہوا تو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا Plan-B کیا ہوگا؟

میرا ذہن اس ضمن میں کوئی ٹھوس جواب ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔ شاید ان کے دل خوش فہم نے ایسا کوئی پلان سوچا ہی نہیں۔ ”مجھے کیوں نکالا“ کی مقبولیت سے مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں۔ قنوطی منطق سے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا الزام اپنے سر لینے کا مجھے بھی کوئی شوق نہیں۔ پنجابی محاورے والا ”یہ گھوڑا اور یہ میدان“ کہتے ہوئے اس موضوع کو ختم کرتا ہوں۔ اس دُعا کے ساتھ کہ میرے ذہن میں آئے خدشات درست ثابت نہ ہوں۔ پاکستان اپنی تاریخ دہراتا نظر نہ آئے۔ عمر کے اس حصے میں طمانیت کا احساس ہو۔ کئی برسوں سے بہت سوچ سمجھ کر اپنائے راستے پر کیا سفر رائیگاں نظر نہ آئے۔

دل شاید بہت اداس ہے۔ اسی باعث خواجہ آصف کے چہرے پر ہفتے کے دن سیاہی پھینکنے کی جوکوشش ہوئی ہے اس نے پریشان کردیا۔2013 ءکا انتخاب ہوا تو طالبان کے خوف سے پیپلز پارٹی اور اے این پی جاندار انداز میں ووٹروں سے رابطہ نہیں کر پائی تھیں۔ انتخاب سے ایک روز قبل یوسف رضا گیلانی کا فرزند اغواءبھی ہوگیا تھا۔

انتخابی قوانین کو تبدیل کرنے کے دوران ایک ”حلف نامے“ کی بنیاد پر جو داستان بنائی گئی اس کی قوت راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22 دنوں تک جاری دھرنے کے دوران بہت شدت سے ہمارے سامنے آ گئی تھی۔ شاہد خاقان عباسی کو وزیر قانون کی قربانی دے کر اپنی حکومت بچانا پڑی۔ مظاہرین کو مطمئن کرنے کے لئے ریاست نے ایک دستاویز پر دستخط ثبت کرتے ہوئے اپنی بے بسی کا اعتراف کیا۔

حقائق خواہ کچھ بھی رہے ہوں۔ ہمارے لوگوں کے چند جذباتی ذہنوں میں یہ سوچ پیدا ہو چکی ہے کہ انتخابی قوانین کو ”آسان“ بنانے کے ”بہانے“ نواز حکومت نے مذہبی حوالوں سے ایک بہت ہی حساس معاملے پر سوادِ اعظم کے جذبات سے کھیلنا چاہا۔ اس سوچ کو ہر دوسرے دن عمران خان صاحب بھی کسی نہ کسی طرح زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے اس سوچ کا کماحقہ مقابلہ نہیں کیا۔ اس سوچ نے انتخابی منظر نامے پر ایک نئی جماعت کو بھی ابھارا ہے۔ وہ جماعت نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے ووٹ بینک میں Dent نہیں ڈال پائی۔اس جماعت کے متوحش ہوئے کارکن مگر پنجاب کے ہر حلقے میں کافی تعداد میں موجود ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران نواز شریف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ان کارکنوں کا سامنا کرنا ہوگا۔

احسن اقبال اورخواجہ آصف کے ساتھ جو ہوا وہ کئی امیدواروںکے ساتھ مزیدمتشدد انداز میں بھی ہو سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہمارے تمام سیاستدان مل بیٹھ کر اس ضمن میں رولز آف گیم طے کر لیں۔ یہ طے نہ ہوئے تو مذہبی بنیادوں پر پھیلایا اشتعال کسی ایک جماعت ہی کو نشانہ نہیں بنائے گا۔ ”اقتدار کی ہوس میں مبتلا“ سبھی دیگر جماعتوں کے امیدوار بھی اس کا نشانہ ضرور بنیں گے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).