مسئلہ ڈاٹ سی سی سے مجھے نفرت ہے


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

وہ: بھئی یہ مسئلہ ڈاٹ سی سی آپ ہی چلاتے ہیں؟
ہم: جی ہاں۔
وہ: آپ نے نہایت ہی بیکار نام رکھا ہے، مسئلہ ڈاٹ سی سی۔ یہ ڈاٹ کام کی بجائے ڈاٹ سی سی نام کیوں رکھا ہے؟
ہم: اصل میں ہر ایک شخص کو اس سے مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے یہی نام مناسب سمجھا گیا۔ اور ڈاٹ سی سی کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ اس کے مضامین پڑھ کر ایسے سی سی کرنے لگتے ہیں جیسے ہری مرچیں چبا لی ہوں۔ مستقبل کا اندازہ کرتے ہوئے اس کے لیے سی سی کی ڈومین کا انتخاب کیا گیا تھا۔
وہ: آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ہمیں تو اس سے کوئی شکوہ شکایت، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ویسے آپ میرا مسئلہ تو کبھی شائع نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ دس مرتبہ مختلف مسائل بھیج چکا ہوں۔ چھوٹی بچی کو خسرہ نکل آیا تھا، آپ نے خبر نہیں چھاپی، بڑا لڑکا کلاس اول میں فرسٹ آیا تھا مگر اسے کپ نہیں ملا، آپ نے وہ \"2800531_orig\"بھی نہیں شائع کیا۔ آپ کی ویب سائٹ کا معیار نہایت ہی گھٹیا ہے۔
ہم: جی معذرت چاہتے ہیں، مگر کچھ ایسے مسائل کا ذکر ہو تو مناسب ہے جو کہ باقی لوگوں کی دلچسپی کے بھی ہوں۔
وہ: ہمارے پورے محلے کو میری بچی کے خسرے سے دلچسپی تھی۔ ہر ایک اپنے بچے چھوئی موئی بنا کر رکھنے لگا تھا۔ اور آپ کہتے ہیں کہ کسی کو دلچسپی ہی نہیں ہے۔ مجھے آپ کی ویب سائٹ سخت ناپسند ہے۔ لگتا ہے کہ آپ ڈاکٹروں اور سکول والوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور سخت بد دیانت ہیں۔ مسئلہ ڈاٹ سی سی سے مجھے نفرت ہے۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر آپ یہ مسئلہ کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"conflict\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: میں آپ کو روزانہ تحریر بھیجتا ہوں، مگر آپ شائع نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ ہی جواب دیتے ہیں۔ آپ کی ویب سائٹ کا معیار نہایت ہی گھٹیا ہے۔ سمجھ نہیں آتی ہے کہ آپ سے کیوں چلا رہے ہیں۔
ہم: جناب ہم اپنی ویب سائٹ پر یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ہم فرداً فرداً ہر مصنف کو جواب دینے سے قاصر ہیں اور اگر تین دن تک مضمون شائع نہیں ہوتا ہے تو انکار ہی سمجھیں۔
وہ: آپ کو یہ تو بتانا چاہیے کہ میرے مضمون میں کیا نقص ہے جسے دور کر کے میری تحریر قابل اشاعت ہو سکتی ہے۔
ہم: جناب کیا آپ کے خیال میں ہم ایک سکول قائم کر کے لوگوں کو لکھنا سکھا رہے ہیں؟ کیا آپ سے مضمون کی اصلاح کرنے اور اس کا معیار جانچنے کی کی کوئی فیس ہم چارج کر رہے ہیں جو آپ توقع کر رہے ہیں کہ آپ کی تحریر کے نقائص ہم دریافت کر کے آپ کو آگاہ کریں؟
وہ: لیکن یہ آپ کا فرض ہے۔
ہم: فرض کیسے ہے؟ کیا ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ دن کے کئی درجن ناقابل اشاعت مضامین کی اصلاح کرتے رہیں، اور قابل اشاعت مضامین کو وقت نہ دیں؟
وہ: اگر آپ نے اصلاح نہیں کرنی ہے تو آپ نے ویب سائٹ کیوں کھولی ہے؟ مسئلہ ڈاٹ سی سی سے مجھے نفرت ہے۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر آپ یہ مضمون کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"Battle3_tnb\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: یہ آپ ہمارے سیاسی مسلک کے مضامین کیوں شائع نہیں کرتے ہیں۔ مخالف سیاسی مسلک کا تو آپ فوراً شائع کر دیتے ہیں۔ ایسی جانبدارانہ رپورٹنگ ہی کی وجہ سے آپ کی ویب سائٹ اتنی گھٹیا ہے۔
ہم: جناب ہم ہر سیاسی فکر کے مضامین شائع کرتے ہیں۔
وہ: میں نے آپ کو پانچ مضامین بھیجے تھے۔ ایک بھی شائع نہیں ہوا۔ جبکہ مخالف پارٹی کے لوگوں کے اس دوران درجن بھر مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
ہم: کیا وہ درجن بھر مضامین ایک ہی شخص کے تھے؟
وہ: نہیں۔ چھے افراد کے تھے۔
ہم: کیا آپ کی سیاسی فکر کے متعلق دس افراد کے مضامین شائع نہیں کیے جاتے ہیں؟
وہ: میرے مضامین تو شائع نہیں کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ آپ کا ہماری پارٹی کے خلاف تعصب ہے۔
ہم: ممکن ہے کہ آپ کے مضامین کا معیار ایسا نہ ہو، یا آپ کا لکھنے کا انداز ایسا ہو کہ ان مضامین کو شائع کیا جانا مناسب نہ ہو۔
وہ: لکھنے کا انداز کیا مطلب؟ کیا مجھے لکھنا نہیں آتا ہے؟
ہم: ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لکھنا آتا ہے۔ لیکن ہم دشنام طرازی کو شائع کرنے سے قاصر ہیں۔
وہ: آپ جو بھی کہیں لیکن میں حق کو ببانگ دہل لکھوں گا اور دشمنوں کو انہی الفاظ میں سمجھاؤں گا جو وہ سمجھتے ہیں۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر آپ یہ مضمون کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"Difference-between-Argumentative-and-Persuasive\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: آپ میرے مضمون کو شائع کرنے سے کیوں انکاری ہیں جبکہ نہایت ہی فضول مضامین آپ شائع کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کی ویب سائٹ کو عوام شدید ناپسند کرتے ہیں۔
ہم: جناب کیا آپ نے ہمارے دیے گئے طریقہ کار کے مطابق مضمون بھیجا تھا؟
وہ: کون سا طریقہ کار؟
ہم: وہ مسئلہ ڈاٹ سی سی پر موجود ہے۔ اور جب آپ ایمیل کریں تو آپ کو خودکار طریقے سے بھی ہدایات بھیجی جاتی ہیں۔
وہ: ایسی دستاویزات تو نو آموزوں کے لیے ہوتی ہیں۔ میں تو ایک نہایت ہی تجربہ کار لکھنے والا ہوں۔
ہم: بخدا بہت خوشی ہوئی سن کر۔ آپ کے مضامین کہاں شائع ہوتے ہیں؟
وہ: میری فیس بک وال پر شائع ہوتے ہیں۔ پچھلے پانچ سال سے میں وہاں لکھ رہا ہوں۔ اتنے زیادہ تجربے کو آپ نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر آپ یہ مضمون کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"Conflict2_tnb\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: آپ میرے مضمون کو شائع کرنے سے کیوں انکاری ہیں۔ آپ کی ویب سائٹ دنیا کی فضول ترین سائٹ ایسے ہی تو نہیں بن چکی ہے۔
ہم: آپ کے مضامین کس چیز کے بارے میں ہوتے ہیں؟
وہ: ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اور فوج راہ راست پر آ جائیں اور طالبان کے ساتھ مل کر امریکی کفار سے جنگ چھیڑ دیں۔ اور جو لیڈر بھی ایسا کرنے سے انکار کرے اس کے ساتھی اس کی تکہ بوٹی کر دیں۔
ہم: جناب ہم بغاوت اور بالائے قانون اقدامات کی حمایت کرنے سے قاصر ہیں۔
وہ: تم نے ڈالر لیے ہوئے ہیں۔ مجھے پہلے ہی علم تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ حق کی آواز بلند کرنے سے انکار کرتے۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر آپ یہ مضمون کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"fight\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: آپ نے آج تک میرا ایک بھی مضمون شائع نہیں کیا ہے۔ آپ کی ویب سائٹ نہایت ہی رکیک مواد شائع کرتی ہے۔
ہم: حضرت آپ کے مضامین میں حروف کم ہوتے ہیں اور رموز اوقاف زیادہ۔ جہاں ایک کومے کی جگہ بھی نہ ہو وہاں آپ پانچ لگا دیتے ہیں اور فل سٹاپ، سوالیہ نشان وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔
وہ: اس سے لہجے کی شدت قاری تک پہنچتی ہے۔ آپ کو حروف کی کمی پر کیا اعتراض ہے؟
ہم: بخدا اعتراض تو کچھ خاص نہیں ہے بلکہ اسے آپ کی خوبی جانتے ہیں، کہ آپ جو املا استعمال کرتے ہیں اسے درست کرنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ اس میں پانچ معیاری تحریریں ایڈٹ کی جا سکتی ہیں۔
وہ: یہ میرا سٹائل ہے۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر یہ سٹائل ہمیں قبول نہیں ہے۔ آپ یہ مضمون کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"conflict2\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: آپ میرا یہ مضمون فوراً شائع کر دیں۔ ویسے تو میں کسی جگہ مضمون نہیں لکھتا ہوں، مگر آپ کی ویب سائٹ کے نہایت غیر معیاری ہونے کے باوجود آپ کے آزادی اظہار کے نعرے کی وجہ سے میں آپ کو یہ مضمون دے رہا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس تحریر کا ایک نقطہ تک تبدیل نہیں ہو گا اور یہ بعینہ شائع ہو گی۔
ہم: حضرت آپ کی تحریر میں ہر مقدس و محترم شے پر گستاخی کو روا رکھا گیا ہے۔ اسے شائع کرنا ہم اچھا نہیں جانتے ہیں۔ وہ مواد نکال کر ہی یہ مضمون شائع کیا جا سکتا ہے۔
وہ: بنتے تو آپ بڑے لبرل اور آزادی اظہار کے چیمپئن ہیں، اور شائع کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ میرا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ یہ میرا آزادی اظہار کے تحت حق ہے۔
ہم: جناب کسی بھی ادارے کے مدیر کا بھی حق ہوتا ہے۔ مدیر کسی بڑے سے بڑے مصنف کی تحریر میں بھی تبدیلی کرنے، جملے حذف کرنے، اور ادارے کی پالیسی کے خلاف مضامین کو مسترد کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اور گستاخ انداز بیاں کے علاوہ اس مضمون میں تو املا اور گرائمر کی بھی دس غلطیاں ایک سرسری نگاہ میں ہی نمایاں ہیں۔
وہ: یہ سب میرا سٹائل ہے۔ آپ نے میرے مضمون میں تبدیلیاں کرنی ہیں تو پھر آپ آزادی اظہار کا نام مت لیں۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر یہ سٹائل ہمیں قبول نہیں ہے۔ آپ یہ مضمون کسی اور جگہ چھپوا لیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی پر ہی چھپواؤں گا، باقی کسی ویب سائٹ پر مجھے اعتبار نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

\"loudspeaker\"وہ شدید غصے کے عالم میں چلے گئے تو ایک اور صاحب آ گئے۔
وہ: یہ آپ نے کیا فضول ویب سائٹ کھولی ہوئی ہے۔ میرا صحافت کا تیس سالہ تجربہ ہے اور آج جو یہ کروڑوں کمانے اور لاکھوں کو پڑھانے والے نمبر ون کالم نگار بنے بیٹھے ہیں، میں ان کا استاد ہوں۔
ہم: بخدا یہ سن کر دل خوش ہو گیا۔ ویسے آپ خود نمبر ون کالم نگار کیوں نہیں بن پائے؟
وہ: ہر میدان میں حاسدین موجود ہوتے ہیں۔ ان حاسدین کی وجہ سے اخبارات کے مالکان مجھے پیچھے دھکیل دیتے ہیں اور کسی بھی اخبار میں ٹکنے نہیں دیتے ہیں۔
ہم: یہ تو بہت افسوسناک بات ہے کہ یہ اخبارات اس طرح اپنے سب سے قابل اور مقبول کالم نگار کو نکال کر اپنی ریڈر شپ گھٹا رہے ہیں۔
وہ: خیر ہماری آہ انہیں لگے گی۔ ایک دن وہ سب دھڑام سے زمین پر آ گریں گے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہم آپ کو آپ کی فضول ترین ویب سائٹ کے بارے میں چند مشورے دینا چاہتے ہیں۔
ہم: ضرور دیں جناب۔ ہر ایک کی بات سننا اچھا ہوتا ہے۔
وہ: دیکھیں آپ زبان پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ جب تک زبان قلعہ معلی کی کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی اردو نہ ہو، وہ صفحہ قرطاس کی زینت نہیں بننی چاہیے۔ مزید یہ کہ ہر فکر کو شائع کرنا مناسب نہیں ہوتا ہے۔ ادارے کو صرف وہی مضامین شائع کرنے چاہئیں جو کہ جمہور اکثریت کی فکر سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس سے ویب سائٹ کو زیادہ مقبولیت بھی ملے گی اور قوم بھی درست راستے پر اپنا سفر جاری رکھے گی۔
ہم: جناب آپ کے یہ خیالات واقعی نہایت خوشنما ہیں اور اس قابل ہیں کہ انہیں آزمایا جائے۔ آپ اپنی ویب سائٹ بنا کر اس پر یہ سب کچھ کیوں نہیں کرتے ہیں؟
وہ: میں یہ کر چکا ہوں۔ بدقسمتی سے دشمنوں کی چند سازشوں کی وجہ سے ویب سائٹ اتنی نہیں چل پائی جتنی کہ آپ کی چل رہی ہے۔ لیکن آپ اپنے سینئیر کی بات پر توجہ دیں گے تو پھر ہی کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ورنہ آپ کا مقدر صرف اور صرف ناکامی ہو گی اور آپ لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بنیں گے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
ہم: آپ جیسے دانمشند اور گرگ باراں دیدہ کے مقابلے میں حاسدوں سازشوں کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ ناکامی کا کوئی اور سبب بھی ہو گا۔
وہ: ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری ویب سائیٹ اس لیے نہ چل سکی کہ کچھ نااہل اور جاہل لوگوں نے ہماری گزارش کے باوجود اس پر لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ ہمارے پاس لکھتے تو وہ کچھ سیکھ لیتے۔
وہ اب جہاں لکھ رہے وہ سائٹ خوب چل رہی ہے، لیکن وہ جاہل یہ نہیں جانتے کہ ان کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے اور وہ نمبر ون کالم نگاروں کی مانند اپنی صلاحیت کی بجائے محض قسمت سے ہی مقبول ہو رہے ہیں۔
ہم: ہم معذرت خواہ ہیں، مگر یہ انداز فکر ہمیں قبول نہیں ہے۔ آپ یہ نصیحت اپنے ہم فکروں کو دے کر انہیں کامیاب کر دیں۔ سینکڑوں ویب سائٹیں آپ کی فکر کے مطابق اردو مضامین شائع کرتی ہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اپنی ویب سائٹ بھی یہ کرتی رہی ہے۔
وہ: نہیں نہیں، میں تو مسئلہ ڈاٹ سی سی کو ہی کامیاب کرنا چاہتا ہوں، باقی کسی ویب سائٹ کی مجھے فکر نہیں ہے۔ ان کی ریڈر شپ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کا کوئی معیار ہے۔

وہ رخصت ہوئے تو ہم سوچنے لگے کہ دنیا میں لوگ خود کچھ کرنے کی بجائے دوسروں کو سدھارنے، بلکہ اپنی مرضی کے مطابق سدھانے میں کتنی زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ گویا نام شکر پارہ روٹی کھائی دس بارہ، پانی پیا مٹکا سارا لیکن کام کرنے کو ننھا بیچارہ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments