جامعات میں پر تشدد رجحانات اور ڈاکٹر عمار جان کی ہراسانی


سماج میں اساتذہ کا کردار داعی کا سا ہوتا ہے۔ یعنی کہ سماج کے عمومی فروغ، اس میں موجود مختلف پرتوں، ان کے آپس میں رشتے، اور نظام کی عمومی مادی اور نظریاتی تقویت (یعنی کہreproduction ) میں اساتذہ کا ایک کلیدی کردار ہے۔ یونیورسٹیاں اور کالج وہ مخصوص جائے وقوع ہیں کے جدھر نوجوان نسل مختلف سماجی رجحانات اور ان سے جڑی سوچ و نظریات سے متعارف ہوتی ہے، ان کو الگ الگ زاویوں سے پرکھتی ہے، اور کسی ایسے مجموعی نتیجے پر پوھنچتی ہے کہ جس سے اس کو دنیا کو سمجھنے اور اس کو ایک مثبت طریقے سے تبدیل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں اور کالجوں نے سالہا سال تک یہ کام بخوبی انجام دیا اور جدوجہد، تنقیدی سوچ اور مزاحمت کی وہ مثالیں پیدا کی جو آج بھی ہماری سیاسی و علمی تاریخ کا ایک مہکتا دمکتا باب ہیں۔ یوں ایوب آمریت، ون یونٹ اور ضیاء مخالف صحافی تحریکوں میں پاکستانی کالجوں اور یونورسٹیوں کے اساتذہ اور ان کے فارغ التحصیل صحافیوں نے نا صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بلکے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کے ملک میں آمریت اور جبر کے خلاف کاری ضرب اور انسان دوستی اور بھائی چارے کا نعرہ لگایا ہی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھے رسمی اور غیر رسمی دانشوروں نے۔

لیکن یہ بھی ایک عیاں حقیقت ہے کے پچھلے تین سے چار دہائیوں میں نہ صرف طلبہ سیاست اور انسان دوست تحریکوں کے درمیان جڑت میں ایک نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، بلکہ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ان اساتذہ کا ہماری جامعات میں اثر و رسوخ کم ہونا ہے جو طلباء کو انسان دوستی کے حق میں اور جبر و آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کا درس دیتے تھے۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ان تمام اساتذہ کے لئے کالجوں اور جامعات کو تنگ کر دیا گا جو طلبا کو اقربہ پروری، خود غرضی اور نظریاتی تنگ دستی کے برخلاف سماجی رواداری، انسانیت پسندی اور مظلوموں سے محبت کا پیغام دیتے تھ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سماج کا وہ حصہ جو ایک داعی کا سا کردار اتا کرتا ہے اس کو مکمل طور پر ناپید بنانے کی کوشش کی گئی۔ یوں جامعات میں اظہار رائے کے پر امن طریقوں اور طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار پر پابندی لگا کر اس مخصوص سماجی گروہ یعنی اساتذہ ہی پر رسمی اور غیر رسمی زنجیریں ڈال دی گئیں جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عملی دنیا میں آتے نوجوان ان تمام علمی و فکری آلات سے آراستہ ہوں جو ان کو سماج کو ایک ایسے سانچنے میں ڈھالنے کے قابل بنائے جس کی بنیاد محبت، بھائی چارے، باہمی رواداری اور انسان دوستی ہو۔

جدھر ان تین سے چار دہائیوں میں ہمیں تاریکی اور رجعت پسندی کے سائے بڑھتے نظر آتے ہیں، ادھر کئی ایسے اساتذہ بھی ہیں جنہوں نے جامعات میں روشن خیال سوچ، داخلی اصطلاح اور باہمی رواداری کی شمع کو مسلسل روشن رکھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں شمع جلائے رکھنے کی سزا عقوبت خانوں اور یہاں تک کے جان سے ہاتھ دھو کر بھی بھگتی۔ لیکن پھر بھی ایسے کئی سرپھرے اور بہادر لوگ ہماری جامعات میں آج بھی پائے جاتے ہیں جو ذاتی حفاظت اور مالی مفاد سے بالاتر ہو کر، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ اتحاد، انسان دوستی اور امن کا پیغام پھیلانے میں مصروف کار ہیں۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ مورخ اور پنجاب یونیورسٹی میں عمرانیات (sociology) کے پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان ہیں۔ اقربا پروری، بد دیانتی اور مالی و نظریاتی کرپشن کے اس دور میں ڈاکٹر عمار جان نے دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد پاکستان اور بیرون ملک کی اعلی ترین نجی یونیورسٹیوں کو ٹھکرا کر، پاکستان میں پبلک سیکٹر جامعات کا رخ کیا۔ پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہوراور پھر جامعہ پنجاب میں جلد ہی ڈاکٹر جان نے اپنی قابلیت و لگن کا لوہا، تشدد و علمی بانجھپن سے تنگ آئے طلبہ میں برابری، امن اور انسان دوستی کا پیغام پھیلا کر بنوایا۔ یوں ایک ایسے ماحول میں جدھر مذہبی اور لسانی بنیادوں پر طلبہ میں تشیدگی روز کا معمول بن چکی تھی اور اساتذہ اور جامعات کے اعلی عہدیدران بھی رجعت پسند اور تفریق پسند سیاسی گروہوں کی بدمعاشی کے آگے گھٹنے ٹیکنے کوتیار تھے، ادھر ڈاکٹر عمار جان اور ان سے متاثر طلبہ نے مختلف تنازعات میں نا صرف ثالثی کا کردار ادا کیا، بلکے ان علمی و فکری مفروضات اور نظریات کو فروغ دیا جو ہمارے بٹے اور بیگانگیت کے شکار سماج و جامعات میں ایک مرہم کا سا کردار اتا کر سکتے ہیں۔

بٹے اور جھکے لوگوں کے خوف پر پلنے والی قوتوں کو شاید ڈاکٹر عمار جان کی یہ ہی ریت نہیں بھائی۔ جب جامعہ پنجاب اور عمرانیات کے ڈیپارٹمنٹ میں حالیہ کشیدگی اور تشدد کے بعد ڈاکٹر عمار جان نے نہ صرف مختلف گروہوں اور انتظامیہ کے درمیان ثالثی کردار ادا کیا، بلکے اس واقعہ کے رد عمل میں احتجاج کرتے پشتون اور بلوچ طلبہ کو عدم تشدد اور پر امن طور پر اظہار رائے کرنے کا درس بھی دیتے رہے۔ یوں کچھ رات پہلے ڈاکٹر عمار جان اور جامعہ کے ایک اور استاد اسلام وزیر نے طلبہ کے دھرنے میں باچا خان، گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ اور ان کی عدم تشدد پر بنیاد مزاحمتی تحریکوں کے حوالے سے ایک مطالعاتی مکالمہ رکھا۔ یوں جامعہ کے اعلی عہدیدران اور انتظامیہ کی امنگوں کے عین مطابق وزیر صاحب اور ڈاکٹر عمار جان نے نا صرف اپنا ثالثی کردار جاری رکھا، بلکے احتجاجی امنگوں کے جائز اور پر امن اظہار کی بھی تلقین و تدریس کی۔

ظاہر ہے کے رجعت پسندی، تشدد، اور کشیدگی پر پلنے والی قوتوں کو ایسی مختلف اور انسان دوست بات کس طرح بھاتی۔ وہ گروہ جو پچھلی کئی دہایوں سے عقیدے ثقافت اور حب الوطنی کے نام پر طلبا کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نفرت کے آتشفشاں پروان چڑھاتی رہی ہیں، ان کو امن، باہمی رواداری اور مظلوم دوستی کا پیغام کیسے بھاتا۔ بلکے ان کو تو طلبا کا پر امن اظہار رائے اور احتجاج بھی اپنی شدت پسند اجارہ داری پر ایک حملہ محسوس ہوتا ہے۔ یوں یہ پچھلے تین دن سے اسلام وزیر اور خاص طور پر ڈاکٹر عمار جان کے خلاف نفرت و پروپیگنڈا کا وہ طوفان مچائے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے اب ڈاکٹر عمار جان کو نہ صرف ذہنی اذیت بلکے اپنی جان و آبرو پر بھی دھمکیاں جھیلنی پڑ رہی ہیں۔

علمی و فکری طور پر پیدل دائیں۔ بازو سے جڑی تنظیموں اور ان سے منسلک سوشل میڈیائی پیج کٹ۔ پیسٹ ویڈیوز کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کے ڈاکٹر عمار جان ایک ہندوستان۔ نواز اور پاکستان۔ دشمن ایجنٹ ہیں۔ یوں ان کی گاندھی کے عدم تشدد سے متعلق علمی افکار کو سیاق و سباق سے ماورا اور کٹ پیسٹ کے ذریعے اس طرح پیش کرا جا رہا ہے جس طرح یہ علمی اپاہج عام لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے ہمارے مقدس صحیفوں اور ان سے جڑے احکامات کو موقع محل سے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ قوتیں اور گروہ ہیں جن کی بظاہر مذہب اور وطن پرستی کے پیچھے محظ بدمعاشی اور علمی و فکری بانجھپن کا ایک بھیانک چہرہ چھپا ہوا ہے۔ یوں یہ کسی آواز اور رجحان کو برداشت کرنے کو نہیں تیار جو ان کی تشدد پر بنیاد اجارہ داری اور فکری معذوری کو چیلنج کرے۔ جس رجحان کا سب سے بہترین ہتھیار کٹ پیسٹ کی وڈیوز اور بھارت۔ نوازی کے الزامات ہوں وہ یقینا کسی فکری، علمی و نظریاتی محاظ پر بحث مباحثہ تو دور کی بات اپنی بات کو کسی عمیق طریقے سے سامنے رکھنے سے ہی قاصر ہے۔ یوں اب وہ تشدد اور دھمکیوں کے اس نہج پر اتر آیا ہے جس نے ایک ہر دل عزیز اور بین الاقوامی لیول پر اپنی قابلیت کا لوہا منوانے والے استاد کی زندگی بھی خطرے میں ڈال دی ہے۔

اس مصنف کا موئقف ہے کہ جامعہ پنجاب اور متعلقہ سیکورٹی حکام کو اس قسم کے پرتشدد اور دھمکی آمیز رویوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہئیے۔ ایسے ہی عناصر نے دنیا بھر میں یہ تاثر عام کر دیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں فرسودہ خیالات اور رجعت پسندی کے پیروکاروں کا بول بالا ہے۔ اس تاثر کا حتمی طور پر اثر ہمارے طلبا کی ذہنی نشو۔ نما میں ہوتا ہے، اور کیوں کے استاد کی حیثیت سماجی داعی سی ہوئی ہے، اس لئے ذہنی و علمی نشو نما سے محروم طلبہ کے ہاتھوں ڈھلنے والے سماج کے فکری انتشار کا اندازہ ہم خود ہی لگا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار جان کے مخالف اور حریف گروہوں سے میری یہ ہی گزارش ہو گی کہ خدارا اختلاف کو تشدد اور مزید تفریق برائے تفریق کی طرف بڑھانے کے بجائے، آئیے علمی اور فکری مکالنے و مناظرے کا سہارا لیں اور اسلام کے اس سنہرے دور کی یاد تازہ کریں جس کی مثال دیتے دیتے آپ تھکتے نہیں۔ اردو کے عظیم شاعر احمد فراز کے ان اشعار کے ساتھ آپ سے رخصت لوں گا:

تم اپنے عقیدوں کے نیزے، ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں، تم خنجر کیوں لہراتے ہو؟

اس شہر میں نغمے بہنے دو
اس شہر میں ہم کو رہنے دو

ہم پالنھار ہیں پھولوں کے،  ہم خشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لھو ہو پینے آئے، ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے، جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی، جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا فرسازوں کا،  جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے

اپنے چہرے آینے میں جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
ایاز ملک حبیب یونیرسٹی کراچی میں وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر سیاسیات اور عمرانیات پڑھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).