چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے دو گزارشات


ایک سیاسی مبصر کو نقل کرتے ہوئے ہیرالڈ میں چھپے اس مضمون میں جس میں جناب فرحت اللہ بابر کی سیاسی و ذاتی زندگی کا احوال تفصیل سے بیان کیا گیا تھا مصنف نے لکھا کہ زرداری صاحب جانتے ہیں کہ جس دن انہوں نے رضا ربانی، فرحت اللہ بابر اور تاج حیدر کو کھو دیا، ان کے ہاتھ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

اسی مضمون میں بابر صاحب اپنی وہ یاداشتیں جو بے نظیر کے ساتھ کام کرتے وقت کی ہیں، کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار بی بی شہید نے ان سے کہا کہ وہ انہیں پاکستانی سیاست کے تناظر میں کوئی نصیحت کریں۔ بابر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا
”آپ اپنی بولنے کی صلاحیت کو سننے کی صلاحیت کے ماتحت کر دیں“۔

مجھے یہ علم نہیں کہ اگر کبھی زرداری صاحب جناب فرحت اللہ بابر سے کوئی نصیحت مانگتے تو وہ انہیں کیا نصیحت کرتے تاہم پیپلز پارٹی کے ایک ہمدرد کی حیثیت سے حالیہ ایک ہفتے کے دوران سینٹ انتخابات کے تناظر میں طے پائی جانے والی سیاسی دھڑے بندیاں اور قائدین کے بیانات اور ان کے نتیجے میں سیاسی مکھن سے بال کی مانند نکلتے ہوئے پیپلز پارٹی کے وہ نیک نام سیاستدان جن کی پارٹی وابستگی اور جمہوریت کے لئے دی گئی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ازحد افسردہ کیا ہے۔

راقم زرداری صاحب کو ایک کائیاں اور کہنہ مشق زیرک سیاستدان کی حیثیت سے جانتا ہے۔ جنہوں نے مسلم لیگ نواز کی حالیہ حکومت میں موقع پرست سیاست کو اپنے اوج تک پہنچاتے ہوئے میاں صاحب کو پہلے بلوچستان اسمبلی میں اور بعد ازاں سینٹ انتخابات میں ازحد حیران کیا ہے۔ نہیں معلوم، کہ تحریک انصاف کے ساتھ سینٹ میں معاملہ بازی سے خان صاحب کی سیاسی حیثیت کس قدر سوالیہ نشان بنی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ اس کے نتیجے میں زرداری صاحب، وہ تمام پتے کامیابی سے کھیلے ہیں جنہیں وہ وقت ِ مقررہ تک چھپائے ہوئے تھے۔ اس بیچ اگر وہ اس صحافی کے تیز لہجے میں پوچھے گئے اس سوال کا کہ چیئرمین سینٹ کے لئے اگر آپ جناب رضا ربانی کانام دیں گے تو میاں نواز شریف بھی آپ کی حمایت کریں گے، جواب دینے میں جلدی نہ کرتے اور فرحت اللہ بابر صاحب کی بی بی شہید کو دی گئی نصیحت پر عمل پیرا رہتے تو ممکن ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو کل یہ نہ کہنا پڑتا کہ جناب رضا ربانی ہماری پارٹی کا اثاثہ ہیں ان کے لئے میرے پاس دوسرا پلان ہے۔

نہیں معلوم کہ چئیرمین پیپلز پارٹی کے پاس جناب رضا ربانی کے لئے کیا پلان ہے تاہم اس مضمون کی توسط سے جناب بلاول بھٹو سے اس قدر عرض گزاری مقصود ہے کہ میاں رضا ربانی 1970 سے پارٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اسٹوڈنٹ پالیٹکس پیپلز پارٹی سے شروع کی۔ وہ 1988 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن مقرر ہوئے۔ وہ بعد ازاں پاکستان کے ایوان بالا کے سب سے زیادہ طویل عرصے تک رہنے والے ممبر رہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزارت سے اس لئے معذرت کی تھی کیونکہ انہیں آمر مشرف سے حلف لینا اپنے جمہوری اصولوں سے غداری لگا تھا۔ وہ پارٹی کی جانب سے صدارت کے امیدوار رہ چکے ہیں۔ وہ چیئرمین سینٹ رہے ہیں۔ وہ پاکستانی فیڈریشن کو وحدت فی الکثرت کے اصول پر چلائے جانے کے موضوع پر کتاب کے مصنف ہیں۔ انہوں نے مشرف کے بنائے ہوئے ایل ایف او کو ایک فراڈ قانون قرار دیا اور اس کی مذمت میں ایک کتاب تحریر کی ہے۔ وہ اب پاکستان میں مسٹر کلین چٹ کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں۔ جمہوریت کی بقا عوام کی فلاح اور پارٹی سے بے لوث اور بلا جھجک وابستگی انہیں اس امر کا مستحق بناتی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ پہ سندھ سے الیکشن لڑیں۔ پارٹی ان کی کامیابی کے لئے کوشش کرے اور اس کے نتیجے میں بننے والی قومی اسمبلی میں وہی پیپلز پارٹی کے امیدوار برائے وزیر اعظم ہوں تاکہ ان کی اس نامزدگی پہ قومی اتفاق رائے ہوسکے۔ کیونکہ مسلم لیگ نواز کی قیادت ہو یا تحریک انصاف کے انفرادی ارکان، پاکستان میں سیاستدانوں کی ایک بڑی کھیپ جناب رضا ربانی کی سیاسی خدمات کی معترف ہے۔

2015 میں ڈان پہ شائع ایک مضمون میں اظفر الاشفاق صاحب نے لکھا تھا کہ جناب زرداری جس قدر اعتماد بابر اعوان، رحمان ملک اور محترمہ فریال تالپور پر کرتے ہیں انہیں اس قدر اعتماد میاں رضا ربانی پہ نہیں ہے۔ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کا معترف ہوا جا سکتا ہے مگر ان کی شخص شناسی اب سوالیہ نشان ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

اگرچہ حالیہ سیاسی منظرنامے میں زرداری صاحب کے سیاسی فیصلوں نے مسلم لیگ نواز کے اکابرین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ بھٹو خاندان کی نظریاتی سیاست کی قیمت پہ اپنے کمرشل مفادات کا تحفظ کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے میاں رضا ربانی کا نام چئیرمین سینیٹ کے لئے مسترد کیا ہے اور فرحت اللہ بابر کو ترجمان کی حیثیت سے ہٹا دیا ہے۔
تاہم اول الذکر گزارش کے ساتھ ایک واقعہ اور چند معروضات کے بعد جناب بلاول کی خدمت میں اپنی عرض گزاری ختم کر دوں گا۔

فرحت اللہ بابر نے اپنے بچپن کے حوالے سے ایک قصہ سنایا ہے جسے ہیرالڈ نے شائع کیا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے بتا رہے تھے کہ انہیں بچپن میں کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار گلی میں کھیلتے ہوئے ان کی گیند ہمسایوں کی چھت پہ جا گری۔ اس پہ انہوں نے ایک چٹ لکھی جس پہ درج تھا۔
”صدر ِ پاکستان کی گیند آپ کی چھت پہ جا گری ہے اسے واپس کر دیجئے۔ “

بظاہر یہ ایک معصوم اور بچگانہ حرکت ہی سہی مگر چالیس سال پہ محیط فرحت اللہ بابر کا سیاسی کیریئر اور پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی ان کا انفرادی کردار، کہ وہ سیاست میں عدلیہ اور فوج کے کردار کے نہ صرف سخت ناقد رہے ہیں بلکہ انہوں نے ایک سرگرم ایکٹویسٹ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں پر جبر کے خلاف، جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون سازی کے حق میں، اعلیٰ فوجی اور عدالتی عہدیداروں کے احتساب کی خاطر اقدامات اٹھانے کے لئے سڑکوں اور ایوانوں ہردو جگہوں پر آواز اٹھائی ہے۔

رواں سال ستمبر میں خاموش طبع جناب ممنون حسین اپنے عہد صدارت سے سبکدوش ہوں گے کیا ہی خوب ہو کہ صدارتی امیدوار کے لئے پیپلز پارٹی محترم فرحت اللہ بابر کا نام تجویز کرے اور صدارت اور وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر یہ نامزدگیاں محترم زرداری صاحب کے مسکراتے لہجے سے سنائی دے تو یہ ممکن نہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کی سیاسی بصیرت پہ ایک بار پھر سر پکڑ کے بیٹھ جائیں۔

محترم بلاول بھٹو زرداری صاحب، راقم کی رائے میں بی بی شہید اور پارٹی کے فلسفے پر دل و جان سے عمل پیرا ان دو شخصیات کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے دینا، پاکستانی جمہوریت کی حقیقی کامیابی اور اس ملک میں عوام کی حکمرانی کے خواب کی عملی تصویر ہوگا۔
آگے بڑھیئے اور عوامی امیدوں کو پورا کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).