انشا اللہ ڈیموکریسی! استغفراللہ


ہیومین رائٹس واچ مجھ اور مجھ جیسے لاکھوں کروڑوں کے لیے انتہائی قابل عزت ادارہ ہے۔ مجھ جیسے کروڑوں لوگ جو ریاستی جبر، زیادتی کا شکار ہوئے ان کے لیے اس ادارے کی گرانقدر خدمات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ عموما ہیومین رائٹس واچ ایسے طبقات کی نمائندگی کرتا ہے جن کے حقوق پر ریاست نے ڈاکہ ڈالا ہو، جو ریاستی جبر، تشدد، زیادتی اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ جب پتہ چلا کہ ہیومین رائٹس واچ کے زیر انتظام فلم فیسٹیول میں “انشا اللہ ڈیمو کریسی” جیسی ڈاکیومنٹری دکھائی جا رہی ہے تو خدا شاہد ہے کہ یہ خبر ایک صدمہ سے کم نہ تھی۔ یہ فلم اپنے تئیں ایک ووٹر کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جسے عام انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالنا ہوتا ہے، ایسا ہوتا تو کیا ہی خوب ہوتا لیکن یہ فلم ایک سابقہ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ 85 منٹ کی اس فلم کے دوران کم از کم 84 منٹ سے زائد وقت میں پرویز مشرف کی ذاتی زندگی، اس کی روشن خیالی اور حسِ مزاح کو جس انداز میں دکھایا گیا ہے وہ انتہائی مایوس کن اور شدید قابل مذمت ہے۔ ہیومین رائٹس واچ کے پلیٹ فارم سے ایسی فلم دیکھنے کے بعد نہ صرف یہ کہ مایوسی ہوئی ہے بلکہ مجھ جیسے بہت سوں کی نظر میں ادارے کی عزت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

جب مجھے اور مجھ جیسے چند دوستوں کو پتہ چلا کہ ہیومین رائٹس واچ ایسا کرنے جا رہا ہے کہ جس میں پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر ہوتے ہوئے ایک سیکولر، لبرل، آزاد اور روشن خیال ہونے کے ساتھ ساتھ لطیف حس مزاح رکھنے والا شخص دکھایا گیا ہے ، تو ہم دوستوں نے اس پر احتجاج کا فیصلہ کیا، ادارے کو خط لکھا گیا، آن لائن پٹیٹشن ڈالی گئی جس میں ہیومین رائٹس واچ سے درخواست کی گئی تھی اپنے پلیٹ فارم سے ایسا نہ ہونے دے تو افسوس اس بات کا ہے کہ سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد کی جانب سے ہم پر شدید تنقید کی گئی اور پوچھا گیا کہ “کیا آپ نے فلم دیکھ لی ہے؟” ۔ اب جب کہ ہم نے یہ فلم دیکھ لی ہے تو ہم نے ان احباب سے دریافت کیا کہ آپ جو ہماری مخالفت کر رہے تھے کیا آپ نے فلم دیکھی ہے، تو جواب ملا “اس سے چنداں فرق نہیں پڑتا”۔ ہمارے احتجاج کا ادارے پر کوئی اثر نہ ہوا اور فلم دکھائی گئی۔ اس فلم کے دوران ووٹر کو محض دو چوائسز نظر آرہی ہوتی ہیں کہ یا تو وہ ایک آزاد و روشن خیال، سیکولر، لبرل سابقہ ڈکٹیٹر کو ووٹ دے یا پھر مذہبی انتہا پسندوں کو ووٹ دے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ فلم میں کیا دکھایا گیا ہے اور کیا نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب انسانی حقوق کے نمائندہ ادارے ہیومین رائٹس واچ کے بینر تلے ہوا ہے۔

جس انداز میں جنرل مشرف کی سیاسی زندگی سے متعلقہ ویڈیو کلپس، پریس کانفرنسوں اور اس کی ذاتی زندگی کے چند پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ، وہ ایک آمر کے جبر، تشدد سے نظر چرانے کی ایک ناکام اور بھونڈی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ ہیومین رائٹس واچ کے سائے تلے سلوبودان ملاسوچ کی زندگی کے روشن اور اچھے پہلووں کو اجاگر کیا جائے گا؟ بات ملاسووچ تک ہی کیوں محدود رہے، کیوں نہ ہٹلر کی زندگی پر بھی ایک ایسی ہی فلم بنائی جائے جس میں اس کی آرٹ سے محبت کو دکھایا جائے، جس میں دکھایا جائے کہ اسے جانوروں سے کس قدر محبت تھی۔ ایسا کیوں نہ کیا جائے؟ کیونکہ جبری گمشدگیوں کی ابتدا ہٹلر کی گسٹاپو نے کی تھی اور اس فن کو بام عروج پر اس ادارے نے پہنچایا ہے جس کی سربراہی جنرل مشرف کے ہاتھ میں تھی۔ انسانی قتل عام میں ہٹلر کا کوئی ثانی نہیں، اور حال ہی میں ملاسووچ پر مقدمے میں اسے ہزاروں ، لاکھوں بے گناہ شہریوں کا قاتل قرار دیا گیا، جنرل مشرف کی سربراہی میں ہونے والی بلوچوں کی نسل کشی کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے، اس پر ستم ظریفی یہ جان ولسن کی کتاب “جہاد اور جنرل” کے مطابق بوسنیا کی جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف کا کردار انتہائی اہم تھا۔

پاکستانی عوام اتنے بیوقوف نہیں اور نہ ہی ہماری یادداشت اس قدر کمزور ہے کہ ہم بارہ مئی کے سانحے کو بھول جائیں، خدا جانے فلم بنانے والے کا حافظہ اس قدر کمزور کیوں ہے کہ اسے بلوچ نسل کشی یاد نہیں رہی، اسے نواب اکبر بگٹی کا بہیمانہ قتل یاد نہیں رہا، اسے مختار مائی اور ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بھول گئیں، وہ یہ بھول گیا کہ کارگل کی جنگ کس نے، کب اور کیوں شروع کی۔ اور تو اور اسی “روشن خیال” آمر کے دور میں بے نظیر بھٹو کی شہادت تک کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کیا یہ سب غفلت ہے یا جان بوجھ کر ان واقعات سے پہلوتہی برتی گئی ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کے فلم بنانے والا مشرف کے کسی احسان کا بدلہ چکا رہا ہے؟

85  منٹ کی اس فلم کے اختتام میں ایک فقرہ ہے کہ مجھے جمہوریت سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، لیکن 84 منٹ اور 45 سیکنڈز کے دوران جو کچھ پردہ سکرین پر دکھایا گیا ہے وہ تو کچھ اور ہی بیان کر رہا ہے کہ یا تو سابقہ آمر کو ووٹ دیں ورنہ ملک میں مولویوں کی حکومت آ جائے گی، تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی ایسا ہی کیا گیا کہ مغرب کو ایک طرف یہ پیغام دیا گیا کہ کہ دیکھ لیں شمال مشرقی سرحدی صوبے میں مولوی برسرِ اقتدار ہیں، دیکھ لیں کہ قومی اسمبلی میں مذہبی جماعت کا نمائندہ اپوزیشن لیڈر ہے، ہم اس قدر کمزور حافظہ کے مالک ہرگز نہیں کہ ہم بھول جائیں کہ اپوزیشن میں اکثریت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے امین فہیم کو اپوزیشن لیڈر کس نے نہیں بننے دیا۔ بالکل یہی بیانیہ اس فلم میں دوہرایا گیا ہے کہ دیکھیں جناب صرف چوائسز ہیں یا تو مشرف یا پھر انتہا پسند مولوی۔ فلم کے بعد جب فلم بنانے والے صاحب “مو نقوی” سے جب یہ پوچھا گیا کہ محترم کیا پاکستانی عوام کے پاس یہی دو آپشنز ہیں، آپ پاکستان پیپلز پارٹی کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں تو جواب مِلا کہ “مجھے پیپلز پارٹی سے نفرت ہے”۔ یہ بات بالکل کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ صاحب کو پاکستانی سیاست کی الف ب کا بھی اندازہ نہیں ہے۔ فلم کے دوران مجھ پر یہ حقیقت کھلی کہ آصف علی زرداری صاحب دراصل “وزیرِ اعظم پاکستان” تھے، میں گذشتہ کئی سالوں سے یہی سمجھتا رہا کہ موصوف صدر پاکستان رہے تھے۔

اس بات سے قطع نظر کے “مو نقوی” صاحب کی ذاتی پسند کیا ہے اور کیا نہیں، فلم میں دکھائے جانے والے مناظر پرویز مشرف کو مظلوم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ایک کلپ کے دوران یہ دکھایا گیا ہے کہ وکلا برادری انتہا پسند مذہبیوں کا ایک گروہ ہے جو ایک آزاد اور روشن خیال قائد پرویز مشرف کے حامیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

فلم بینوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ڈاکیومنٹری آئندہ چند ماہ میں سینما گھروں کی زینت بنے گی، ہو سکتا ہے کہ میری ذاتی ذہنی اختراع ہو لیکن یہ وقت وہی ہو گا جب پاکستان میں عام انتخابات ہو رہے ہوں گے، اگر انتخابات ہوئے تو۔ پھر یہ بیانیہ بھی پچھلے کئی مہینوں میں سامنے آیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کی بجائے پاکستان میں صدارتی جمہوریت کا نظام زیادہ بہتر رہے گا۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے، واللہ اعلم بالصواب ، حقائق کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔

جہاں تک ہیومین رائٹس واچ کا تعلق ہے کہ بخدا اِس ادارے نے بہت مایوس کیا ہے۔ ہیومین رائٹس واچ نے وہی پراپیگنڈہ دہرایا جانے دیا ہے جو فوجی جنتا اور پرویز مشرف بیان کرتے رہے ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر کو ایسے روشن اور آزاد خیال لیڈر اور واحد چوائس کے طور پر پیش کرنا بہت ہی مایوس کن ہے، فلم بنانے والے فلم بنانے میں آزاد تھے، ہمیں ان سے کوئی گلہ نہیں، گلہ ہے تو ہیومین رائٹس واچ سے کہ آپ کو ایسی کونسی مجبوری تھی جو آپ کو ایسے بیہودہ پراپیگنڈہ کی حمایت کرنی پڑی؟ کیا یہ حمایت آپ کے ادارے پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟ ۔ جب ہیومین رائٹس واچ کے نمائندہ صاحب سے سوال کیا گیا تو جواب ملا کہ “ہمیں آگے چلنا چاہیے”۔ میرے نزدیک تو اس کا مطلب ہے کہ مشرف کے تمام مظالم، جبر، تشدد اور جمہوریت اور آئین کی پامالی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں اس کی روشن خیالی اور آزاد سوچ کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کے سیاستدان تو ہیں ہی کرپٹ اور نا اہل۔ ہیومین رائٹس واچ والے صاحبان سے گزارش ہے کہ آپ کی مجھ جیسے کمزوروں کے لیے آواز اٹھانے کا بہت شکریہ، برائے کرم آئندہ بتا دیجیے گا کہ اگر آپ کی حمایت کے بدلے ہمیں ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ دینا ہو گا تو ہماری طرف سے معذرت سمجھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).