آج کل کے ناول نگار اور عرضِ ہُنر میں فائدہ خاک


تب مجھے اس کہانی کی جستجو ہوئی جو کتاب ختم ہونے کے بعد شروع ہوجاتی ہے۔ پھر یہ کہانی میرے سامنے آئی اور ازخود کُھلتی چلی گئی، اس کے لیے جان جوکھوں کے جتن نہیں کرنا پڑے۔

بات چلی ایک کانفرنس سے۔ بہت سی کانفرنسوں میں بہت ساری باتیں ہوتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر اجلاس سے شروع ہو کر کانفرنس ہال کے باہر برآمدوں، راہداریوں، چائے کی پیالیوں پر ختم ہوجاتی ہیں۔ شاید ان میں سکت بھی بس اتنی ہوتی ہے۔ لیکن اس بار میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ کراچی کی آرٹس کائونسل میں عالمی اردو کانفرنس کا ہنگامہ حسبِ معمول زور شور سے جاری تھا۔ بہت سے لوگوں کا ہجوم، جن میں ادیب، شاعر موجود اور حاضرین کی ریل پیل، گفتگو کے بہت سلسلے۔۔۔ اپنا مقالہ ختم کرکے میں جلسہ گاہ سے باہر آیا تو ایک نوجوان خاتون نے مجھ سے پوچھ لیا۔ میں ذرا پُرجوش ہوکر ان کو بتانے لگا کہ اردو ناول پر بات ہوئی ہے۔ عام طور پر اچھے ناول جلدی جلدی سامنے نہیں آتے۔ لکھنے کے مسائل بھی ہیں اور معاشرتی مسائل بھی، اس لیے صورت حال امید افزاء نہیں رہتی۔ لیکن ادھر پچھلے دو ایک برس میں کئی اچھے ناول تواتر سے سامنے آئے ہیں۔ چائے کی پیالی پر میں ان ناولوں کے بارے میں بات کرنے لگا۔ مقالے کا جوش شاید ابھی تازہ تھا۔

انھوں نے بڑے تحمّل سے میری بات سُنی، پھر ایک ہی سوال نے مجھے واپس زمین پر پہنچا دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ صحافی ہیں، بڑے اخبار سے وابستہ ہیں اور اپنے خاندان کی مناسبت سے اردو روانی سے بول لیتی ہیں مگر آج کل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرح اردو پڑھنے کا تکلّف نہیں کرتیں۔ ’’میں اردو ادب کے بارے میں نہیں جانتی۔۔۔‘‘ انھوں نے دونوں ہاتھوں سے پیالی تھامتے ہوئے کہا۔ ’’مگر میں سوچ رہی ہوں یہ ناول کون لوگ پڑھتے ہوں گے؟ ان کی مارکیٹ کیا ہے؟ لکھنے والے ان کو لکھتے کیوں ہیں، کیا ان کو پیسہ کمانے کی توّقع ہوتی ہے؟ کیا ناول لکھنے سے مکان کا کرایہ اور ڈاکٹر کی فیس ادا کی جا سکتی ہے؟ یا پھر کسی بڑے میڈیا ہائوس کو قسط وار ڈرامے کے لیے حقوق فروخت کرنے کی امید؟‘‘ ان کے ایک سوال سے کتنے سوال نکلتے چلے آئے اور میرے لیے اس کہانی کی تلاش شروع ہوگئی جو ان ناولوں کے گرد اس طرح چوکٹھے میں قائم ہوگئی جیسے کُنڈلی مار کے سانپ بیٹھا ہو۔

جن ناولوں کا ذکر کیا تھا، ان کے ناول نگاروں سے شروع کیا اور چند ایک باتیں دریافت کیں، سو اب وہی یہاں بیان کرتا ہوں۔ مگر یہ خبردار کرتا چلوں کہ یہ چند کتابوں کا قصّہ ہے، سب کی بات نہیں۔ ان دو تین لکھنے والوں کے تجربات اور مشاہدات ہیں، ان کو کلیّے میں ڈھالنا مناسب نہیں ہوگا ورنہ عمومی ہوکر یہ بات بدل جائے گی۔

اس گفتگو کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اسی طرح کے سوالوں کے دائرے میں اور ناول بھی آسکتے ہیں۔ میں خاص طور پر محمد عاصم بٹ کے ’’دائرہ‘‘، نیلم احمد بشیر کے ’’طائوس فقط رنگ‘‘، علی اکبر ناطق کے ’’نولکھی کوٹھی‘‘، سید سعید نقوی کے ’’بارش سے پہلے‘‘ اور عاطف علیم کے ’’مشک پوری کی ملکہ‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو کئی اعتبار سے اس نہج کی گفتگو کے متقاضی ہیں۔ اور ہاں صفدر زیدی نے ہالینڈ اور سوری نام کے پس منظر میں ’’چینی جو میٹھی نہ تھی‘‘ لکھ کر اردو ناول کو ایک نئے منطقے میں پہنچا دیا ہے، اس کا موضوع اور برتائو بھی تجزیہ طلب ہے۔

پچھلے دنوں جس ناول کو پڑھنا میرے لیے خاص طور سے خوش گوار تجربہ ثابت ہوا وہ اختر رضا سلیمی کا مختصر سا ’’جندر‘‘ ہے۔ اس سے پہلے ادبی دنیا اختر رضا سلیمی کو ایک ابھرتے ہوئے شاعر کے طور پر جانتی تھی یا اس لحاظ سے کہ وہ اسلام آباد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے ادارتی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ 2005ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے پس منظر میں لکھا ہوا ان کا پہلا ناول ’’جاگے ہیں خواب میں۔۔۔‘‘ سامنے آیا اور صرف پس منظر کی کامیابی عکاسی نہیں، اپنے گہرے فکری پہلو کی وجہ سے اس ناول نے متاثر کیا۔ ان کا دوسرا ناول لاہور سے شائع ہونے والے موقر جریدے ’’سویرا‘‘ کی ایک اشاعت میں پورا سما گیا پھر کتابی شکل میں سامنے آیا۔ مانسہرہ کے نواحی علاقے میں چلنے والی چکّی کے شب و روز زندگی کے بارے میں بڑے بڑے سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ زندگی کا عمل چکّی کی مشقت کی طرح جاری رہتا ہے۔

’’لکھنے کے بعد کا عمل زیادہ مشکل تھا‘‘ اختر رضا سلیمی سے جب میں نے رابطہ کیا تو انھوں نے مجھے بتایا۔ ’’لکھنے کے دوران یہ ہوا کہ میں نے دونوں ناول ایک خاص رو کے تحت لکھے۔‘‘ بیک وقت یہ اذیت اور سرشاری کا عمل تھا۔ سارے دن دفتر میں کام کرنے کے بعد روز رات کے وقت لکھتے۔ دس بجے لکھنے بیٹھتے اور ایک ڈیڑھ بجے تک لکھتے۔ یہ روز کا معمول تھا زیادہ مشکل اس وقت پیش آتی جب ایک بجے کا گجر بج جاتا اور آمد کی کیفیت ختم نہ ہوتی۔ ’’میں جس وقت ’’فارم‘‘ میں ہوتا رات بھر لکھتا رہتا اور صبح کے وقت بس منھ ہاتھ دھوکر دفتر چلا جاتا تھا۔ میں عموماً چھٹّی نہیں کرتا تھا اور دفتر والوں کو اس سے کیا غرض کہ میں رات بھر کس کیفیت میں گزار کر آیا ہوں۔‘‘

ان کے پہلے ناول کا پہلا مسوّدہ اسی طرح متواتر لکھتے رہنے سے ساڑھے سات مہینے میں مکمل ہوا۔ یہ ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل تھا۔ اس میں سے سو، سوا سو صفحے چھانٹنے پڑے، کیونکہ ان کو لگا کہ وہ غیرضروری ہیں۔ ’’کہانی بکھری ہوئی تھی‘‘ انھوں نے مجھ سے کہا۔

’’جندر‘‘ پہلے پہل ان کو ایک کہانی کی صورت میں ملا۔ بیس، بائیس صفحے کا افسانہ پانچ، سات دن میں لکھ دیا مگر کہانی نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ تین مہینے لگاتار لکھ کر پھر یوں ہی چھوڑ دیا۔ دو مہینے بعد دوسری بار لکھا، پھر تیسری بار، پھر چوتھے ڈرافٹ کے بعد محمد سلیم الرحمٰن کو مسوّدہ بھیج دیا۔ انھوںنے چند جگہ معمولی سی تبدیلیاں کیں اور سختی سے ممانعت کر دی کہ اب کچھ اور لکھو گے تو تم اس کو خراب کردو گے۔ اس لیے ناول چھپنے کو دے دیا۔

’’جندر‘‘ انھوں نے بچپن میں دیکھا ہوا تھا۔ لیکن ناول لکھنے کے دوران ایک رات وہاں جاکر گزارنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایک دوست ان کو وہاں لے کر گیا اور وہ رات بھر اناج پیستے رہے۔ اگلی صبح وہاں کے ’’جندروئی‘‘ نے ان کے دوست سے کہا، تم تو کہتے تھے یہ اسلام آباد میں آفیسر ہے، یہ تو پاگل سا آدمی ہے!

پاگل پن کے خطاب کے علاوہ کتاب سے کم حاصل ہوا۔ جو تھوڑی بہت رائلٹی ملی اس سے کتابیں لے لیں جو دوستوں کو دینے کے کام آئیں۔ کچھ ہاتھ نہ آنے کے باوجود انھوں نے پھر بھی لکھا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے شاعری سے ادبی زندگی شروع کی اور میں نے احمد فراز کو دیکھا تھا، اس لیے میں نے جان لیا کہ میرا رزق اس سے نہیں جُڑے گا۔

پہلے ناول کے تین ایڈیشن آچکے ہیں اور جندر کا دوسرا ایڈیشن آیا چاہتا ہے۔ ایک دوست نے انگریزی میں ترجمہ کرکے ہندوستان مل گیا ہے۔ خیال یہ ہے کہ چھپ گیا تو رائلٹی بھی ملے گی۔ ورنہ اگلے ناول کا منصوبہ تو ذہن میں پک رہا ہے۔ سافٹ ویئر سے متعلق کام سمیٹ کر وہ آئندہ ضخیم ناول لکھنا چاہتے ہیں۔

نوجوان قلم کار رفاقت حیات کے افسانوں کا ایک مجموعہ چھپ چکا ہے۔ ناول ’’میرواہ کی راتیں‘‘ انھوں نے 1998ء کےلگ بھگ لکھنا شروع کیا۔ اس کے پیچھے یہ تجربہ تھا کہ ان کو متواتر اکیلا رہنا پڑا، خاص طور پر سندھ کے چھوٹے شہروں، قصبوں میں۔ جو صورت حال نظر آئی اس نے پریشان کیا۔ خاص طور پر محبّت کی صورت حال خراب نظر آئی، اس کے ردعمل میں یہ ناول ذہن میں بن گیا۔

تین، چار مہینے میں پہلا مسوّدہ لکھ ڈالا۔ پھر اس کو دوبارہ نئے سرے سے لکھا۔ دوسرا مسوّدہ انھوں نے چند دوستوں کو دکھایا۔ ایک افسانہ نگار نے کہا تم ناول لکھنے میں کامیاب ہوگئے ہو۔ تم سے ناول بن گیا ہے۔ ایک مدیر نے کہا اس میں فحاشی زیادہ ہوگئی ہے۔ جنس کے اظہار والے حصّے نکال دو۔ ’’میں نے ان کی بات نہیں مانی۔۔۔‘‘ ناول نگار نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔

ناول پورا ہوگیا مگر چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ ناول نگار گھریلو ذمہ داریوں میں الجھ گیا۔ ’’پھر میری شادی ہوگئی اور میں اپنے گھر میں لگ گیا۔۔۔‘‘ وہ بتانے لگے۔ ٹیلی ویژن کے نجی چینلز کے لیے ڈرامے لکھتے رہے مگر ناول کی اشاعت سے پیسے کا خیال نہیں آیا۔ ’’ہمارے ہاں صورت حال خراب ہے۔‘‘ انھوں نے بہت اطمینان سے مجھے بتایا۔ ’’اردو میں ناول لکھنے والے اپنے شوق اور لگن سے لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ملتا۔‘‘ بڑے ادارے نئے لکھنے والوں کی کتابیں آسانی سے چھاپتے نہیں ہیں۔ ’’زیادتی تو ہے مگر اس کا کوئی حل نہیں ہے۔‘‘ وہ اپنی بات مکمل کر دیتے ہیں۔

اس ناول کے مسوّدے کو انھوں نے 2015ء میں دوبارہ اٹھایا اور پھر سے صاف کیا۔ اس صورت میں یہ ایک رسالے میں چھپ گیا۔ کتابی صورت میں اس طرح چھپا کہ دوستوں نے مل کر ناشر تلاش کیا۔ ناشر تو مل گیا مگر اس نے کتاب چھاپنے کے پیسے بھی مانگ لیے۔ رقم سن کر نوجوان ناول نگار کے ہوش اُڑ گئے۔ 2016ء میں ناول چھپ گیا جب ایک نئے ناشر کے مطالبے ایسے نہیں تھے جو ناول نگار کی جیب خالی کر دیں۔ معاوضے میں جتنی کاپیاں ملیں وہ بھی دوستوں میں تقسیم ہوگئیں۔

کچھ یہی تجربہ اس وقت بھی دُہرایا گیا جب اس ناول کا سندھی میں ترجمہ ہوا۔ وہاں بھی اشاعت کی صورت حال مختلف نہ تھی۔ ان ہی شرائط پر کتاب چھپ گئی۔ ناول نگار کے حصّے میں پذیرائی آئی۔

اس کے باوجود رفاقت حیات کے حوصلے بلند ہیں اور وہ ایک نئے ناول پر کام کررہے ہیں۔ ناول لکھنا ان کے لیے کئی برس کی ریاضت کا معاملہ ہے۔ دیکھیے اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

نوجوان شاعر سیّد کاشف رضا ایک ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ چار سال کے عرصے میں لکھا۔ انھوں نے متواتر نہیں لکھا بلکہ رک رک کر لکھتے رہے۔ ’’میں نے اس سے پہلے فکشن لکھا ہی نہیں تھا۔ میں خود ہی اسے مشکل بناتا چلا گیا۔ میری پوری کوشش تھی کہ اسے نہ لکھوں۔ اس لیے میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا کہ ناول لکھ رہا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ پورا نہیں ہو سکے گا اور بہت سے ایسے منصوبوں کی طرح رہ جائے گا۔ اب لکھا تو اس طرح نہیں لکھوں گا۔‘‘ وہ بہت اطمینان کے ساتھ کہتے ہیں۔

سیّد کاشف رضا کی شاعری کے دو مجموعے اس سے پہلے سامنے آچکے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی لکھے ہیں جو رسالے میں چھپنے کے بعد پڑھنے والوں کو پسند آئے مگر فکشن لکھنے کا تجربہ ان کے لیے نیا تھا۔ ’’افسانہ مجھے پسند ہی نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے اس صنف پر طبع آزمائی نہ کرنے کی وجہ بتائی۔ ’’افسانہ پسند آنے لگتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے بس چیخوف پسند ہے۔‘‘ پھر کچھ دیر بعد وہ کہتے ہیں، ’’ہاں بورخیس بھی بہت پسند ہے!‘‘

ناول لکھنے کا محرک کیا تھا، اس بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ ایسے کچھ لوگوں کو جانتے تھے جن کے بارے میں لکھنے کا خیال آیا۔ ارادہ یہ تھا کہ پاکستان کی صورت حال جیسی ہے اس پر کچھ بنایا جائے۔ جن لوگوں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا ان کے بارے میں کہا جائے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں بتاتے ہیں کہ اس کی صورت طنز اور مزاح کے وسیلے سے نظر آئی۔

کتابی شکل میں اس ناول کے چھپنے کی نوبت ابھی نہیں آئی۔ خیال یہ ہے کہ دو ایک ماہ میں سامنے آجائے گا۔ ’’چھپنے کے لیے جن سے کہا تھا وہ راضی تھے۔ میں نے خود ہی فیصلہ کرنے میں تاخیر کردی۔‘‘ وہ مجھ سے کہتے ہیں۔ اچھی اشاعت کا معیار ان کی نظر میں تھا۔ رائلٹی کا سوال اہم نہیں تھا۔ ’’رائلٹی مل بھی جائے گی تو اس سے کیا ہوگا؟‘‘ وہ مجھے بتاتے ہیں۔ ’’میں خود اپنے شوق سے لکھتا ہوں۔ ترجمہ بھی میں نے پیسے کے لیے نہیں کیا، تخلیق تو دور کی بات ہے۔‘‘ فکشن ان کے نزدیک اپنی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

یہ ناول کتابی صورت میں سامنے نہیں آیا مگر موضوع گفتگو پہلے سے بن گیا۔ ادبی رسالے ’’آج‘‘ میں اس کی اشاعت نے ادب کے سنجیدہ قارئین کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ’’اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کے بارے میں بات ہونے لگی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: ’’فکشن کے نامعلوم قاری زیادہ ملے۔ اس سے پہلے شاعری کی دو کتابیں آئیں مگر اس طرح کے پڑھنے والے اس ناول کو مل رہے ہیں وہ نہیں ملے تھے۔‘‘ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ناول میں سیاسی عنصر خاص ہے، کاشف رضا خود ہی یہ بات کہہ دیتے ہیں۔ ’’اس وجہ سے بات کرنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔‘‘ مگر اس کے باوجود ایک اہم نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ’’مجھے پتہ چلا کہ اردو میں فکشن پڑھنے کی بھوک موجود ہے۔ لوگ نیا فکشن پڑھنا چاہتے ہیں!‘‘

اس ساری گفتگو میں ناول کے لیے شاید یہی بات مجھے سب سے زیادہ امید افزاء معلوم ہوئی۔ یہ سلسلہ رہا تو ناول کی کہانی آگے بڑھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).