کیا واقعی ”گو نواز گو“ ہو گیا ہے؟


سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست دلچسپ ہے۔ توقع تھی کہ مقابلہ سخت ہو گا۔ مگر ایک نمایاں مارجن سے شکست کھانے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا نواز شریف اگلے انتخابات تک اپنی پارٹی بچانے میں کامیاب رہیں گے یا نہیں۔ انتخابات تک ایک بڑی تعداد میں ان کی پارٹی سے الیکٹ ایبل پنچھیوں کے اڑنے کی توقع تو پہلے سے تھی۔ لیکن جس کامیابی سے انہوں نے پاناما کی بدنامی کو ”مجھے کیوں نکالا“ کے منتر کے ذریعے اپنے حق میں تبدیل کیا وہ ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت کا شاہد ہے۔ لیکن سینیٹ کے انتخابات کے بعد یہ لگتا ہے کہ کہیں یہ مقبولیت ایک سراب نہ نکلے۔

غالباً جولائی 2016 کی بات ہے۔ ابھی پاناما عدالت تک نہیں پہنچا تھا۔ ایک محفل میں نصف درجن نہایت باخبر حضرات موجود تھے جن کی رائے تھی کہ نواز شریف اپنی مدت پوری کریں گے۔ ساتواں وہ تھا کہ آسمانوں کی خبر لاتا تھا۔ بلکہ لاتا کیا تھا بناتا تھا۔ اس نے اختلاف کیا۔ کہنے لگا کہ نواز شریف پاناما کے معاملے میں نا اہل ہو جائیں گے۔ عدالت سے سزا پائیں گے اور ان کے سر سے تاج اتار لیا جائے گا۔

بقیہ چھے نے اختلاف کیا۔ ان میں سے ایک قانون کے بڑے ماہر تھے۔ وہ بہت سے وکلا کے استاد تھے۔ تین نمایاں صحافی تھے۔ ایک بیرون ملک مقیم ایک جہاندیدہ شخص تھے اور ہم تھے جو کھانا کھانے کی نیت سے اس محفل کے شریک تھے۔ سب نے جوش و خروش سے دلائل دیے کہ موجودہ شواہد کو دیکھتے ہوئے قانون کے تحت یہ ممکن ہی نہیں ہے پاناما پر سزا دی جا سکے۔ تس پہ وہ آسمانوں کی خبر لانے والا گویا ہوا کہ ”قانون کیا ہوتا ہے؟ جب سزا دینے کا فیصلہ آسمانوں پر ہو جائے تو ہر شے خود بخود سزا دینے کا راستہ نکال لیتی ہے“۔ ہم محفل سے اٹھے تو خوب ہنسا کیے کہ یہ دیوانہ کیسی ناسمجھی کی باتیں کرتا ہے۔ بیس اپریل 2017 آیا تو پتہ چلا کہ دیوانے تو ہم تھے جو ظاہر کو دیکھتے تھے، باطن کو جاننے سے قاصر تھے۔ آسمانوں کے فیصلے جاننے والا ہی سچ بول رہا تھا۔

اب یہ توقع تو ہے کہ کارکنانِ قدرت نواز شریف کو اقتدار سے دور رکھنے کے اسباب پیدا کریں گے۔ ان کی پارٹی سے بہت سے شرطیہ منتخب نمائندے اڑان بھریں گے۔ وقت قریب آنے پر ان کو جیل بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی ان کے خطابات پر ویسی پابندی لگ جائے جیسی سابقہ الطاف حسین حالیہ بانی ایم کیو ایم پر لگی تھی۔ لیکن ووٹر کے بارے میں کچھ پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف پنجاب کا ووٹر مظلوم کا ساتھ دینے پر یقین رکھتا ہے تو دوسری طرف وہ شرطیہ ہارے ہوئے گھوڑے پر وقت ضائع نہیں کرتا۔

ہوائیں مخالف چل رہی ہیں۔ عزت مآب بابا رحمت نے آج عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ انتخابات کو 1970 کی طرف صاف شفاف کریں گے، الیکشن میں بیوروکریسی کو بھی بدل دیں گے، بیورو کریسی کو دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کر دیں گے۔ آرمی چیف کرپشن کے مکمل خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ امید ہے کہ یہ دونوں نیک ارادے تمام دانش مند افراد کو کرپشن سے نفرت کرنے اور کرپٹ عناصر سے دور بھاگنے پر مائل کریں گے اور ایسے شفاف انتخابات ہوں گے جن میں نواز شریف صاف ہو جائیں گے۔ جیسا کہ آپ نے سینیٹ کے الیکشن میں پہلا اشارہ دیکھ بھی لیا ہو گا۔ لیکن یہ چیز دیکھنے کی ہے کہ عام ووٹر اس پر کیا ردعمل دیتا ہے۔ عام ووٹر ہی نواز شریف کا مقدر بدلے تو بدلے ورنہ پکے قسم کے ”گو نواز گو“ کے بادل گھنے ہوتے جا رہے ہیں۔

لیکن دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ ہما کس کے سر پر بیٹھے گا۔ آصف زرداری، عمران خان یا کوئی تیسرا خوش نصیب جسے دیکھ کر سب امیر خسرو کی کہہ مکرنیاں پڑھا کریں گے ”کھیر پکائی جتن سے، چرخہ دیا جلا، آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا“

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar