تھر کی کرشنا کماری جنریٹر بن گئی ہے


پیپلز پارٹی کی نو منتخب سینیٹر کرشنا کماری کولہی تھر کے ایک ہاری کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران اپنے ماضی میں جھانکتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی ایک وقت کا کھانا ملتا تھا اور پائوں میں پہننے کے لیے جوتا بھی نہیں ہوتا تھا۔کرشنا نے ایک انٹرویو میں یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اپنے بچپن میں خاندان سمیت عمر کوٹ کے ایک وڈیرے کی قید میں رہ کرگندم کی کٹائی اورکپاس کی چنائی سمیت زمینداری کے تمام امورسرانجام دے چکی ہیں۔

اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بھوکے پیاسے تھر کے ایک کم ذات اور غریب خاندان کی بیٹی کو سب سے بڑے ایوان میں پہنچانے والے گلے سڑے نظام کا قصیدہ پڑھنے لگے ہیں تو بلاتاخیر مایوس ہو جائیے۔ کل کی تو کوئی گارنٹی نہیں، کیا خبرکب انسان کی نیت میں فتور آ جائے۔ البتہ آج کی حد تک ہم نے ایسا کوئی لغو موضوع نہ چھیڑنے کا عہد کر رکھا ہے۔

عرض یہ کرنا ہے کہ کرشناکماری کی ایک دلگداز بات ہمیں بھی اپنے ماضی کی بھول بھلیوں میں لے گئی ہے۔ انہوں نے اپنے گائوں کی کم علمی اورسادہ لوحی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ انہیں سینیٹر نہیں کہہ سکتے، وہ کہتے ہیں کہ کرشنا جنریٹر بن گئی ہے۔

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب! کبھی ہم لوگ بھی تھرپارکر کے ہاریوںکی طرح اتنے پسماندہ تھے کہ اپنے عہدکی ایک خاص شخصیت کو جنریٹرکہا کرتے تھے۔ کہتے تو خیر اب بھی ہیں؛ تاہم کرشنا کولہی اور ان کی شخصیت میں کوئی مماثلت نہیں کہ محترمہ کو لوگ اپنی کم علمی کی بنا پر جنریٹر کہتے ہیں جبکہ ہمارے مرزا اپنی ذات میں ایک مکمل جنریٹر واقع ہوئے ہیں۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ کالج میں ہمارے ایک کلاس فیلو مرزا پہاڑ خان ہوا کرتے تھے۔ نام کے ہی نہیں، قد و قامت کے بھی ہمالیہ اور نظریات پر استقامت میں بھی کوہِ گراں ۔ مرزا حصول علم کے لیے ایک دور دراز دیہات سے بلا ناغہ تشریف لاتے اور اس مقصدِ اولیٰ کی خاطر سفر کی صعوبتوں اور موسم کی سختیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔ آپ کئی برس تک علم حاصل کرنے کی تہمت کا بارِ گراں اٹھائے اس سفر میں مبتلا رہے۔ مرزا محترم اپنے قیمتی وقت کا غالب حصہ کالج کینٹین میں شمع محفل کی صورت صرف کرتے اور پھر شہر کی سیاحت کے دوران اپنے عشقیہ اوصاف کے سبب ایک دو جگہ سے بے عزت ہونے کے بعد واپسی کے لیے لاری اڈے کا قصد کرتے۔

مرزا کو پانی اور درختوں سے عشق کی حد تک لگائو تھا اور آپ ہر دو اشیا کے ضیاع کے سخت مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نہانے دھونے اور مسواک وغیرہ کرنے سے شاذ و نادر ہی پالا پڑتا۔ ان عاداتِ جمیلہ نے آپ کی شخصیت کو ایسا نکھار بخشا کہ ان کی گندمی رنگت سیاہی مائل اور آف وائٹ دانت پیلے زرد ہو گئے تھے۔ بخدا قہقہ لگاتے تو ایسی قیامت ڈھاتے کہ قرب و جوار میں مکھی مچھر تو کیا جراثیم بھی پھڑک پھڑک کر مر جاتے۔

سردیوں کے آغاز میں مرزا صاحب اپنی مخصوص بھاری بھرکم جیکٹ نکال کر پہن لیتے اور گرمیوں کے آغاز میں رفقا کے پر زور اصرار پر ہی اتارتے۔ جیکٹ ہٰذا چونکہ دھونے وغیرہ جیسے بے وقعت عمل سے کبھی نہ گزری تھی لہٰذا اس سے ایک دلفریب بھینی بھینی سی خوشبو اٹھتی تھی جو دور ہی سے مرزا کی آمد کا اعلان کرتی اور ہم لوگ کہتے ”لو مرزا آ گئے‘‘۔

علاوہ ازیں دو خاص خوبیاں آپ کی شخصیت کی پہچان تھیں۔ پہلی یہ کہ خرد و فہم کی کلی ناپیدی و مفقودی کے طفیل ان کا دماغ ملکی خزانے کی طرح خالی تھا اور دوسری یہ کہ وہ ضمیر کے جھانسے میں کبھی نہ آئے۔ مرزا پہاڑ خان جب تک تعلیم کے ساتھ پنجہ آزما رہے، اپنے وضع کردہ ایک اصول پر پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے۔ امتحانات کے دنوں میں بلا شرم و جھجک فرماتے:

کوئی وجدا ڈھول ہوسی
میں پرچے انج دیساں‘ ٹیسٹ پیپر کول ہوسی

ایک دفعہ مرزا کمرۂ امتحان میں چھاپہ مار ٹیم کے ہاتھوں بوٹی سمیت پکڑے گئے تو تین سال تک امتحان دینے کے لیے نااہل قرار پائے مگر اپنے اصولوں سے اس حد تک کمیٹڈ تھے کہ تین سال بعد جب دوبارہ کمرۂ امتحان میں تشریف لائے تو ٹیسٹ پیپر ”کول‘‘ ہی تھا۔ مرزا کو موسیقی سے بھی شغف تھا۔ وہ اکثر وجد میں آ کر کوئی اخلاق سوز گیت چھیڑ دیتے اور اثنائے واردات ہٰذا‘ سُر، لَے اور نغمگی کی آبرو پر رکیک حملے کرتے۔

ہم لوگ خصائص بالا کی بنا پر مرزا کو پیار سے ”فاسق و فاجر‘‘ کہا کرتے تھے۔ آپ کو اس کا مطلب معلوم نہیں تھا، سو اسے کوئی ارفع لقب خیال کر کے شاد ہوتے۔ ہم نے کامل سوا برس تک انہیں کامیابی کے ساتھ فاسق و فاجر بلایا، پھر کسی دشمن نے انہیں اس کا مطلب بتا دیا تو مرزا بہت ناراض ہوئے۔ ہم نے معذرت کر کے ان کا نام ”جنریٹر‘‘ رکھ دیا ۔

یہ لقب بھی ان کی شخصیت پر انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھا کیونکہ ان کی آواز میں ایسا نکھار تھا کہ جب آپ گفتگو یا گیت کا آغاز کرتے تو یوں لگتا جیسے جنریٹر اسٹارٹ ہو گیا ہو۔ خدا معاف کرے، ہم نے انہیں بتایا تھا کہ یہ ”سر‘‘ سے بھی بڑا لقب ہے۔ اس وقت لوڈشیڈنگ نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور مرزا کو جنریٹر کی زیارت بھی نصیب نہ ہوئی تھی، لہٰذا انہوں نے اس لقب کو بعجز و انکسار قبول فرما لیا۔

بدقسمتی سے ہماری یہ کاوش بھی گیارہ ماہ سے زیادہ کامیابی سے ہمکنار نہ رہ سکی۔ مرزا کو راولپنڈی کا سفر درپیش ہوا تو وہاںلاری اڈے کے کسی ریسٹورنٹ میں ان کے لنچ کے دوران بجلی چلی گئی۔ ریسٹورنٹ کے مالک نے چھوٹے کو آواز دے کر جنریٹر چلانے کو کہا تو مرزاکے کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے چھوٹے کا تعاقب کر کے بنفس نفیس جنریٹر اور اس کی آواز ملاحظہ فرمائی تو سیخ پا ہو گئے۔

دوسرے دن کالج آکر انہوں نے ہنگامی میٹنگ بلائی اور پوری کلاس کی خوب کلاس لی۔ ہم لوگوں نے بارِ دگر ان سے معذرت توکی مگر جنریٹرکا لقب مستقل ان کے نام کاحصہ بن گیا۔ آج بھی نوجوان نسل ان کے اصل نام سے ناآشنا ہے اور انہیں مرزاجنریٹر ہی بلاتی ہے۔ المختصر! کئی سال تک مرزا کی تعلیم کے ساتھ سرد جنگ جاری رہی۔ آخرکار ناکامی نے ان کے قدم چومے اور تمام تر صلاحیتوںکے باوجود انہیں اس میدان میں شکستِ فاش ہوئی۔ اسی شکست کی پاداش میں مطلوبہ جگہ پر ان کے رشتے کے لیے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہو گئے۔

”تعلیم‘‘ سے فراغت کے بعد مرزا جنریٹر دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے جعلی ڈگریوں کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے اور لمبے عرصے تک لمبا مال بنایا؛ تاہم اپنی روایتی انکساری کی بنا پر اس بزنس کو باعزت دال روٹی کا نام دیا کرتے تھے۔ اسمبلیوں کے لیے بی اے کی شرط ختم ہوئی تو دھندے میں مندا دیکھ کر مرزا کا جی اچاٹ ہو گیا اور وہ اس کام کو چھوڑ کر ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے جعلی ویزوں کے بزنس پر کمر بستہ ہو گئے۔

قبل ازیں آپ بحیثیت ٹھیکیدار سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں گھپلے کر کے اپنے اور افسران کے بچوں کا پیٹ پالتے رہے۔ بوگس کاغذات پر قرضہ حاصل کر کے آپ نے ایک کمرشل بینک کو بھی مقدور بھر چونا لگایا۔ شنید ہے کہ جنریٹر نے کچھ عرصہ چوری چکاری اور پلاٹوں کی ہیرا پھیری سے بھی دال دلیا چلایا۔ اس دوران مرزا کو کئی دفعہ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی اور متعدد مرتبہ جیل بھی تشریف لے گئے۔

ایک کالم میں تو مرزا پہاڑخان کی حیات و خدمات کا خلاصہ بھی نہیں سما سکتا، سو ہم یہ کار خیر آئندہ پہ اٹھاتے ہوئے‘ مختصراً آج کی صورت حال پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ بھی منتخب ہو چکے۔ یہ سیاسی عمل مرزا جنریٹرکو ایک مرتبہ پھر دکھی کر گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس ملک میں ٹیلنٹ کی قدر نہیں، ورنہ آج وہ جنریٹرکی بجائے سینیٹر ہوتے۔

دوسری طرف اہل تھر کے مقابلے میں ہم لوگ اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ اراکینِ ایوان بالاکو پورے احترام کے ساتھ سینیٹر بلاتے ہیں۔ مرزا ہمارا یہ دعویٰ جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے بغیرکسی ثبوت کے الزام عائدکرتے ہیں کہ تم لوگ صرف رضا ربانیوں، فرحت اللہ بابروں اور کرشنا کماریوں ہی کو سینیٹر کہتے ہو، جبکہ جو لوگ ضمیرکے جھانسے میں آئے بغیر لین دین کے زور پر سینیٹر بنے ہیں اور جنہوں نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران اسی اصول کے تحت اپنی سیٹ کیش کرائی ہے، انہیں تو تمہاری جہالت اب بھی اہل تھرکی طرح جنریٹرہی کہتی ہے… استغفراللہ! حد ہوتی ہے ہرزہ سرائی کی۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).