بارہ مارچ: قرارداد مقاصد سے سینیٹ الیکشن تک


بہار کے دن ہیں۔ نئے سبز پتے ٹہنیوں پر جابجا نکل رہے ہیں۔ کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ درودیوار سے سبزہ اگ رہا ہے۔ آج مارچ کی بارہ تاریخ ہے۔ ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب آج شام ہو گا۔ گویا آج ایوان بالا آئینی تقاضوں کے مطابق اپنی تشکیل نو مکمل کر لے گا۔ درویش کے دل ناصبور کا خمیر مگر عجیب مٹی سے اٹھا ہے۔ وہ جو استاد ذوق نے کہا تھا،

لو مجھے لے چلا وہیں، دیکھو
دل خانہ خراب کی باتیں

بارہ مارچ سے عجیب عجیب خیال امڈے چلے آتے ہیں۔ 1949کا برس تھا۔ مارچ کی بارہ تاریخ تھی۔ دستور ساز اسمبلی نے اس روز قراردادمقاصد منظور کی تھی۔ ایوان میں اس روز کل 31ارکان موجود تھے۔ اکیس مسلم اور دس غیر مسلم۔ میاں افتخار الدین، بیگم شاہنواز اور سر ظفر اللہ خان سمیت تمام مسلم ارکان نے قرارداد مقاصد کی تائید کی۔ دوسری طرف کسی ایک غیر مسلم رکن اسمبلی نے قرار داد مقاصد کی حمایت نہیں کی۔

پاکستان کی مملکت میں حاکمیت اعلیٰ کے سوال پر یہ دوٹوک تفریق بارہ مارچ 1949 کو سامنے آئی۔ یہ وہی دستاویز تھی جس میں قائد اعظم کے 11اگست 1947کے اس فرمان کی صریح تکذیب کی گئی تھی کہ ’پاکستان کی مملکت میں عقیدے کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جائے گا‘۔ پاکستان کے آئین کی شق بیس میں ہر شہری کو عقیدے کی غیر مشروط آزادی دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ایک تاریخی فیصلے میں یہ واضح کر چکے ہیں۔ عقیدے کی آزادی کے جملہ زاویے اور مفہوم ان بین الاقوامی دستاویزات میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، جن پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں اور جن کی ریاستی سطح پر توثیق کی جا چکی ہے۔ بارہ مارچ 1949 کو ہم نے وہ سفر شروع کیا جس کے بطن سے اس اشتعال انگیز سوچ نے جنم لیا ہے جس نے گزشتہ روز تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے قائد پر سر مجلس جوتا اچھالا ہے۔

خواجہ آصف کے چہرے پہ سیاہی پھینکی ہے۔ خواجہ آصف کے طرز سیاست سے اختلاف کے پہلو نکلتے رہتے ہیں لیکن یہ خواجہ محمد آصف کو ہدیہ تبریک دینے کی گھڑی ہے۔ ٹھیک پینسٹھ برس پہلے مارچ 1953میں خواجہ آصف کے والد محترم خواجہ محمد صفدر مرحوم کے ساتھ سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے یہی سلوک کیا تھا۔ تفصیل اس واقعے کی منیر انکوائری کمیشن رپورٹ میں موجود ہے۔ خواجہ آصف کو فیض کا یہ شعر دہرانے کا استحقاق مل گیا ہے:

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

بارہ مارچ 1949ء کی قرارداد 1973کے آئین میں دیباچے کے طور پہ شامل کی گئی تھی۔ ضیا آمریت نے مذہبی رہنمائوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اسے دستور کا قابل نفاذ حصہ بنا ڈالا۔ مجھ پہ آئی کہاں ٹلی ہے ابھی / ذکر میرا گلی گلی ہے ابھی۔ اسلام آباد کے ایک قاضی نے یہ طرفہ تجویز دی ہے کہ فوج سمیت تمام سرکاری محکموں میں ملازمت کے امیدواروں کے لئے عقیدے کا بیان حلفی لازم قرار دیا جائے۔ اس پر صحافت کے ایک گنجفہ کبیر نے بڑے زوروں سے داد دی ہے۔ وزیرے چنیں، شہر یارے چناں… ہماری تاریخ میں تہذیب کی پسپائی کے یہ سب اشارے بارہ مارچ سے منسوب ہیں۔ 1951 میں پنجاب کے صوبائی انتخابات بھی دس مارچ کو ہوئے تھے جن میں جھرلو کی اصطلاح متعارف کروائی گئی۔ اور لطف یہ ہے کہ ان انتخابات میں اصل دھاندلی ٹھیک دو روز قبل آٹھ مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کیس کے انکشاف کی صورت میں ہوئی تھی۔ جنہیں انتخاب لڑنا تھا، وہ عقوبت خانوں کی زینت بن چکے گئے۔

فیض نے اسی لئے کہا تھا، وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا… 1977میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک کا اعلان بھی بارہ مارچ کو کیا گیا تھا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کو تحریک نظام مصطفیٰ کا نام دیا گیا۔ یہ سیاست میں مذہب کا کارڈ کھیلنے کی ایک نئی مثال تھی۔ ٹھیک گیارہ برس پہلے عدلیہ بحالی کی تحریک بھی بارہ مارچ سے شروع ہوئی تھی۔ تب جوش سے بھرے گرم خون نوجوان سڑکوں پہ نکل آئے تھے اور کہتے تھے، عدلیہ بحال کرانے نکلے ہیں۔ آج کل ان میں سے بہت سے مانتے ہیں کہ عدلیہ تو بحال ہو گئی، عدل آزاد نہیں ہوا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے مارچ 1977ء کی تحریک نے بھٹو حکومت ختم کر دی مگر نظام مصطفیٰ کی بجائے ہمیں گیارہ سالہ آمریت پر اکتفا کرنا پڑا۔

یہ کالم چھپ کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا تو سینیٹ کے معرکے کا نتیجہ واضح ہو چکا ہو گا۔ ووٹوں کی گنتی میں کون سرخرو ہوتا ہے اور کسے شکست نصیب ہوتی ہے، یہ تو کاغذ کے ٹکڑوں کی گنتی سے معلوم ہو گا لیکن درویش کہے دیتا ہے کہ’’آگ دوڑی رگ احساس میں گھر سے پہلے‘‘۔ ربیع کی اس فصل کی رونمائی تو دو روز قبل اسلام آباد میں ہو چکی۔

تیس سے کچھ زیادہ صحافی ایک اعلیٰ مجلس میں بلائے گئے تھے، جو کچھ کہا اور سنا گیا، وہ صیغہ راز میں ہے۔ ادھر ادھر سے ہواؤں نے جو افسانے کہے ہیں، ان میں بلبل آشفتہ سر کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ قوم ان گنت داخلی اور خارجی خطرات میں گھری ہے اور حضور شاہ سے خبر ملتی ہے کہ ’’قد و گیسو میں، قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے‘‘… سینیٹ کے انتخاب میں مہرے اس ہنرمندی سے سجائے گئے ہیں کہ ہاتھ کی صفائی کی داد دینا پڑتی ہے۔ کراچی کے اہل زبان اسے سیاسی چائنا کٹنگ کہتے ہیں۔ ایسی انجینئرنگ کہ راوی کا دھارا جمنا کے گھاٹ پر بہہ رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید اگر آج حیات ہوتیں تو انہوں نے چمک کی بجائے کڑک کا استعارہ استعمال کیا ہوتا۔ ہمارے لئے مگر دو سو برس پہلے استاد غلام مصطفی مصحفی نے کہا تھا…

ہاتھ سے گوروں کے جانبر ہوویں کیونکر اہل ہند
کام کرتے ہی نہیں ہرگز یہ بن کونسل کئے

آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ ’کونسل‘ کے لفظ کی جگہ سازش رکھ دیجیے۔ شعر وزن سے خارج نہیں ہو گا اور معنی تو صدیوں سے یہی چلا آ رہا ہے۔ جب اس ملک کی تاریخ لکھی جائے گی تو محض بارہ مارچ سنہ 2018بروز سوموار نہیں لکھا جائےگا۔ اس ورق پر ہماری تاریخ کی تلچھٹ مع تلخی پڑھی جا سکے گی۔ خدا خیر کرے، آج استاد غلام مصطفیٰ مصحفی بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ کچھ شعر ان کے پڑھ لیجیے، بارہ مارچ کی قرارداد مقاصد 1949اور بارہ مارچ 2018کے بانکے مغل بچوں سے کوئی مشابہت محض اتفاقیہ ہو گی۔

حکم سلطاں ہے کہ اس محکمہ عدل کے بیچ
دست فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی
٭٭٭

ہندوستاں نمونہ دشت بلا ہے کیا
جو اس زمیں پہ تیغ ہی چلتی ہے اب تلک
٭٭٭

گر ہو طپنچہ بند وہ رشک فرنگیاں
بانکے مغل بچے نہ کریں خانہ جنگیاں
ہندوستاں میں دولت و حشمت جو کچھ بھی تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).