نیل کا ساحل، کاشغرکی خاک اور یورپین یونین کا خواب


\"abdul-Majeed-487x400\"گزشتہ چند روز سے ’ہم سب‘  پر اسلامسٹ اور سیکولر نقطہ ہائے نظر کے مابین مکالمے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ دماغ ایک دہائی قبل ہونے والی ایک ملاقات کی طرف چل نکلا۔ لڑکپن میں نسیم حجازی، عنایت اللہ اور ڈاکٹر اسرار احمد کی کتب سے مستفید ہونے کے سبب خلافت کی جانب رجحان پیدا ہوا۔ ملک کے حالات امید افزا نہ تھے سو بہت سوں کی طرح ہم پر بھی \’انقلاب\’ کا بھوت سوار تھا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ لاہور میں ایک خوش شکل، خوش الحان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحب سے ملاقات ہوئی جو دراصل حزب التحریر کے مبلغ تھے۔ درج بالا ملاقات ان صاحب سے تعارف کے کچھ ماہ بعد ہوئی اور ہمارے ہمراہ جامعہ پنجاب میں تعلیم یافتہ ایک دوست بھی تھے۔ مبلغ صاحب نے احوال دریافت کرنے کے بعد \’خلافت\’ پر اپنی تقریر کا آغاز کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے بعد کفار کے کشتوں کے پشتے لگانے پر اپنی بات ختم کی۔ خلافت پر میرا یقین محکم ہو چکا تھا البتہ میرے دوست کے کچھ شکوک و شبہات موجود تھے۔ اس نے مبلغ بھائی سے مجوزہ خلافت کی اقتصادیات اور تجارتی تعلقات کے متعلق سوالات شروع کئے جن کا رٹا رٹایا جواب تو مل گیا لیکن استدلال ذرا بودا تھا۔ کرنسی اور دیگر مالی امور کے متعلق بحث پر بھی آئیں بائیں شائیں ہونے لگی تو میں ٹھٹک گیا۔ مبلغ صاحب نے ہمیں حزب التحریر کی ان موضوعات پر تیار کردہ کتب فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہیں بھائی۔  یہ وہ سحر تو نہیں کہ جس کی آرزو لے کر میں گڑھی شاہو سے گارڈن ٹاؤن آیا تھا۔ ملاقات بہرحال دوستانہ انداز میں اختتام پذیر ہوئی اور ہم وطن واپس لوٹے۔

پانچ برس قبل سلمان تاثیر کی شہادت کے بعد کچھ ہم خیال لوگ گارڈن ٹاؤن کے ایک دفتر میں جمع ہوا کرتے تھے اور سیاست، معاشرت، تاریخ وغیرہ پر آزادانہ بحث ہوتی تھی۔ اس دفتر میں ایک روز میرا سامنا ایک مشہور نجی ادارے کے دو طلبہ سے ہوا۔ بحث پر پابندی نہیں تھی لہٰذا نظام حکومت اور جمہوریت کے متعلق بات شروع ہوئی۔ حزب التحریر کا وہی لیکچر ایک دفعہ پھر مجھے سننا پڑا۔ اب کی بار میں اور بھی بہت کچھ پڑھ چکا تھا سو ان دوستوں سے عاجزانہ اختلاف کی جسارت کی۔ جس کفریہ نظام پر وہ لعن طعن فرما رہے تھے، ان سے گزارش کی کہ اس نظام کا حصہ بننے پر تو انہیں کوئی پرخاش نہیں، نہ ہی ان کی مجوزہ حکومت میں یہ سب ٹھاٹھ ان کو میسر ہوں گے۔ خواتین کے حقوق پر بات ہوئی تو وہ جذباتی ہونے لگے اور دھمکیاں دیتے دفتر سے نکل گئے۔

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد اسلامسٹ نقطہ نظر کی توہین نہیں بلکہ ان کے دلائل میں کمزوری کی نشاندہی کرنا ہے۔ یورپین یونین جیسی خلافت کا چرچا پہلی دفعہ اس بحث کے دوران ہی سنا۔ جماعت اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد، حزب التحریر، اخوان المسلمین یا داعش کی تقاریر و تحاریر میں یہ نظریہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ میری ناقص معلومات کے مطابق یورپی یونین کے قیام کی وجہ مذہب نہیں تھی کیونکہ اس اتحاد میں کچھ ممالک میں کیتھولک افراد کی اکثریت ہے جبکہ زیادہ تر ممالک میں پروٹسٹنٹ افراد کی اور شمالی یورپ کے ممالک میں تو ایک کثیر تعداد کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی۔ یورپی یونین نما خلافت میں فقہی مسائل کا کیا حل نکالا جائے گا۔ ہمارے ہاں جب ضیاء راج نافذ ہوا تو ریاست کے حکم کے باوجود اہل تشیع زکوٰۃ کے مسئلے پر اختلاف کرتے اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ جغرافیائی طور پر بھی یہ خلافت ناقابل عمل دکھائی دیتی ہے کیونکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے بیچ بھارت ہے اور مشرق وسطیٰ میں اردن، شام اور مصر کے بیچ اسرائیل کی ریاست موجود ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا پہنچنے کے لئے برما سے گزرنا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کا اصل فائدہ تو زمینی رابطے کی آسانی میں پنہاں ہے، اس ماڈل کی تقلید کے لئے اسباب آپ کے پاس موجود نہیں۔

 تاریخ کی بحث میں پڑ گئے تو خلافت کی دہائی دینے والوں کو زک پہنچے گی۔ سردست محض دو واقعات ملاحظہ کریں۔ بر صغیر کے پہلے مغل بادشاہ بابر نے عثمانی خلیفہ کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کیا اور تمام مغل بادشاہوں  کے دور حکومت میں جمعے کے خطبے میں ان کا نام لیا جاتا تھا۔ اورنگزیب نے سرکاری دستاویزات میں \’امیر المومنین\’ کا لقب استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر مبارک علی کی تحقیق کے مطابق میسور کے سلطان ٹیپو کو انگریز افواج نے گھیر لیا تو اس نے عثمانی خلیفہ کو امداد کی غرض سے خط بھجوایا۔ خلیفہ نے کمک بھیجنے کی بجائے وہ خط  انگریزوں کو ارسال کر دیا۔ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے، ابھی ایک آدھ سال قبل ہی مصر میں \’اسلامی حکومت\’ قائم ہوئی اور کچھ زیادہ تر چل نہ سکی لہذٰا فوجی جرنیل نے تختہ الٹ دیا۔ اس فوجی جرنیل کی سب سے زیادہ امداد کسی یہودی یا عیسائی ملک نے نہیں بلکہ سعودی عرب نے کی۔ جملہ معترضہ سمجھ لیں لیکن یہ\’امت\’ کا تصور اقبال کے شعر اور شعلہ بیاں مقرر کی تقریر تک ہی محدود رہے تو بہتر۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments