میں معذور تھی، میرا دوست نہیں لیکن ہم نے شادی کئے بغیر برسوں محبت کی


ہر چوائس
کبھی کبھی وہ یہ بھول جاتا تھا کہ میرا ایک ہاتھ نہیں ہے۔

اگر آپ نے اپنے آپ کو اسی طرح قبول کیا ہو جیسے آپ ہیں تو پھر آپ کے ارد گرد کے لوگ بھی آپ کو آسانی سے اسی طرح قبول کرتے ہیں۔

وہ ایک مضبوط آدمی تھے، ایک مکمل شخص، انھیں کوئی بھی لڑکی مل سکتی تھی۔ لیکن وہ میرے ساتھ تھے۔ ہم بغیر شادی کے ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے لگے تھے۔ لیکن شادی کے بغیر ساتھ رہنے کا فیصلہ بہت آسان نہیں تھا۔

اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میں نے اپنی ماں کی خواہش کے تحت اپنی شادی کے لیے اپنی پروفائل ایک ضرورت رشتہ والی ویب سائٹ پر بنائی۔ میں 26 سال کی ہو چکی تھی اور میری ماں کا خیال تھا کہ یہ میری شادی کا صحیح وقت ہے۔

بچپن میں ایک حادثے میں میرا ایک ہاتھ جاتا رہا تھا۔ لہذا میں اپنی شادی کے بارے میں ان کی تشویش کو سمجھ سکتی تھی۔ ایک دن، مجھے اس ویب سائٹ پر ایک پروپوزل آیا۔ وہ پیشے سے انجینیئر اور میری ہی طرح ایک بنگالی تھا۔ تاہم وہ کسی دوسرے شہر سے تھا۔

ملاقات کا فیصلہ

لیکن میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھی۔ اس لیے میں نے لکھا کہ میں ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس کے باوجود، اس کا جواب آیا: ‘تاہم، ہم بات کر سکتے ہیں۔’ میں ایک فلیٹ میں دو دوستوں کے ساتھ رہتی تھی جنھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ شخص دھوکے باز ہو سکتا ہے جو مجھے استعمال کرنے کے بعد چھوڑ سکتا ہے۔ مجھے دو خراب رشتوں کا تجربہ تھا اور مجھے اچھی طرح سے یہ پتہ تھا کہ مجھے اگلی بار کیا نہیں کرنا ہے۔

درحقیقت میں کسی نئے رشتہ کے لیے تیار بھی نہیں تھی لیکن میں اپنی زندگی اکیلے بھی نہیں جینا چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے ان سے بات چیت شروع کردی۔ اور ان کا نام اپنے موبائل میں ’ٹائم پاس‘ کے نام سے محفوظ کر لیا۔ پھر ایک دن، ہم نے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ میں نے انھیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میرا ایک ہاتھ نہیں ہے۔

پھر ذہن میں ان کے ردعمل سے ایک قسم کا ڈر بیٹھا ہوا تھا۔ فروری کا مہینہ تھا۔ میں اپنے دفتر کے کپڑوں میں تھی۔ میں نے صرف لپ سٹک اور آئی لائنر لگا رکھی تھی۔ ہم سڑک پر ایک ساتھ چل رہے تھے۔ اسی دوران ہم  نے آپس میں بہت سی مشترک باتیں پائیں۔ آہستہ آہستہ، ہم دوست بن گئے۔ وہ ایک پرسکون شخصیت کے مالک تھے اور اپنے انداز میں میرا خیال رکھتے تھے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ میں اپنے گھر بہ حفاظت پہنچوں۔ بعض اوقات دیر ہونے کے باوجود وہ مجھے گھر چھوڑتے تھے۔ اگر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا اور مجھے تنہا ہی جانا ہوتا تو وہ کہتے کہ دس بجے سے پہلے گھر پہنچ جایا کرو۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میں اچھی بیوی بن پاؤں گی یا نہیں لیکن ان میں ایک اچھے شوہر کی تمام خصوصیات تھیں۔

ہر چوائس

ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ہمارا یہ رشتہ کس جانب جا رہا تھا، لیکن ہم دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ پسند آنے لگا تھا۔ ایک بار میں بیمار ہوئی تو وہ دوائیں لے کر آئے اور اپنے ہاتھوں سے کھلایا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا تھا۔ وہ ایک شاندار دن تھا۔

اس کے بعد جب ہم گھومنے جاتے تو ایک دوسرے کے ہاتھ ہاتھوں میں ہاتھ ہاتھ ڈال کر چلتے۔ میرا داہنا ہاتھ تھا۔ چند ماہ کے بعد میری فلیٹ میٹ کی شادی ہو گئی۔ پورے فلیٹ کرایہ دینا میرے لیے مشکل تھا۔ اس دوران ویب سائٹ پر شادی کے پروفائل سے بننے والے دوست کے فلیٹ کے ساتھ والا کمرہ خالی ہوا۔ میں وہاں چلی گئی۔ در اصل یہ محض دکھاوا تھا کہ ہم ایک ساتھ نہیں رہ رہے ہیں جبکہ ہم لوگ ایک ساتھ ہی رہ رہے تھے۔

لیکن جب میری والدہ مجھ سے ملنے آئیں تو شاید انھیں پتہ چل گیا کہ ہم دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اب ہم ایک دوسرے کو زیادہ قریب سے جاننے لگے۔ اسی دوران میری معذوری سے متعلق میرے تمام خدشات غائب ہونے لگے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ میں تمام تر گھریلو کام آسانی سے کر لیتی ہوں تو پھر ہم نے جاب بدلی اور گھر بھی۔ اب ہم تیار تھے۔ ہم جانتے تھے کہ لو ان ریلیشن صرف جنسی خواہشات کو پورا کرنے کا نام نہیں۔

اس کا مطلب پوری زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا ہے۔ ایک دوسرے کو ان کی مرضی کا خیال کرتے ہوئے قبول کرنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتوں نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔انھیں کھانا پکانا نہیں آتا تھا اور نہ ہی مجھے۔ لیکن رفتہ رفتہ میں نے سب کچھ سیکھ لیا۔

ہر چوائس

مجھے اپنے بارے میں جو بھی شک و شبہ تھا وہ دور ہو چکا تھا۔ میں یہ سوچتی تھی کہ اگرچہ میں رومانٹک نہیں ہوں لیکن مجھ میں ایک اچھی بیوی بننے کی صلاحیت ہے۔ وہ بھی اسے اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ لیکن ان کے خاندان کی نگاہوں میں میں عام عورتوں سے کم قابل تھی۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جب انھوں نے میرے بارے میں انھیں بتایا تو ان کی ماں نے کہا: ’دوستی کی بات ٹھیک ہے لیکن ایسی لڑکی سے شادی کرنے کے بارے میں بھول جاؤ۔‘

لوگ پہلے سے ہی کیوں اندازہ لگاتے ہیں؟ اور میں ان کے خیال کی فکر کیوں کروں؟ میں اپنی زندگی اور پسند و ناپسند کو محدود کیوں کروں؟ مجھے اپنے جیسا ہی معذور پارٹنر کیوں تلاش کرنا چاہیے؟ میرے بھی کسی دوسری عام خاتون کی طرح خواب اور خواہشات تھے۔ مجھے ایسے شریک حیات کی خواہش تھی جو سب چیزوں کے ساتھ مجھے سمجھ سکے۔

پھر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان کے والدین سے بغیر یہ بتائے فون پر بات کروں کہ میں وہی معذور لڑکی ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے والدین پہلے انھیں ایک انسان کے طور پر جانیں۔

جب سے میں نے اپنا ہاتھ گنوایا تھا مجھ پر یہ دباؤ رہا ہے کہ میں کسی عام لڑکی کی طرح سارے کام کروں۔ بہر حال جب وہ مجھ سے ملنے آئے تو انھوں نے انھی سب معیار پر میرا تجزیہ کیا۔ انھیں یہ نظر آیا کہ میں کسی بھی غیر معذور لڑکی کی طرح سارے کام ایک ہاتھ سے کر سکتی ہوں۔ خواہ سبزیاں کاٹنی ہوں، کھانا پکانا ہو، بستر لگانا ہو، برتن مانجھنا یا گھر کی صفائی کرنا ہو۔ جلد ہی ان کے والدین کا یہ خیال جاتا رہا کہ میری معذوری نے میری صلاحیتیں محدود کر دی ہیں۔

آج، ہماری شادی کے ایک سال بعد بھی، ہماری محبت بڑھ رہی ہے۔ شادی کے بعد اور لو ان ریلیشن کے دوران میری جسمانی معذوری رکاوٹ نہیں بنی۔ آج میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا میں ایک بچے کی دیکھ بھال کر پاؤں گی۔ اور اس کا جواب بھی ہے۔ جب آپ کو اپنے آپ پر اعتماد ہوتا ہے تو آپ کے قریب رہنے والے لوگ بھی آپ کی ماں بننے کی صلاحیت پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

(یہ شمالی انڈیا میں رہنے والی ایک خاتون کی زندگی کی حقیقی کہانی ہے۔ بی بی سی کی نمائندہ اندرجیت کور  نے ان سے بات کی۔ خاتون کے مطالبے پر ان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر دویہ آریہ ہیں۔)

اس سیریز کے دیگر حصےمیں نے شادی نہیں کی، اسی لیے تمہارے والد نہیںکچھ دنوں کے لیے نہ میں کسی کی بیوی اور نہ ہی ماں!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp