جیے بھٹو سے جیے بوٹو تک کا سفر!


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بوٹ اور ووٹ کی لڑائی میں صرف ووٹ بوٹ سے پٹ رہا ہے۔ بوٹ نہ گھس رہا ہے نہ پرانا ہو رہا ہے بلکہ ووٹ ہی اس بات کو یقینی بنا رہا ہےکہ بوٹ کی چمک بر قرار رہے۔ آج کل جلسوں میں مریم نواز کا ایک نعرہ بہت مشہور رہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ مگر محتر مہ کو یہ بات کون سمجھائے کہ ووٹ کو عزت دی نہیں جاتی بلکہ ووٹ اپنی عزت خود کرواتا ہے۔ ووٹ عزت اور تقدس اسی صورت میں کھو دیتا ہے جب ووٹ خود کسی کے سامنے جھکے۔ ورنہ نہ تو کوئی ووٹ کو گرا سکتا ہے نہ جھکا سکتا ہے۔ رہی بات شطرنج کے مہروں اور بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جانے والوں کی تو کسی نے زبردستی تو کی نہیں۔ اگر آپ اپنے آپ کو بکاؤ مال ظاہر کریں گے تو قیمت تو لگے گی۔ منڈیوں میں ایسا ہی تو ہوتا ہے نہ جنس کی کمی ہوتی ہے نہ خریدار کی۔ اور پاکستان کی سیاسی منڈی تو ایسی منڈی ہے جہاں سدا فروانی رہتی ہے۔ یہ ایسی دلہن ہے جو ہمیشہ سہاگن رہتی ہے۔ جب گھر کی حفاظت پر معمور چوکیدار ہی ڈاکوؤں سے مل جائے تو ڈاکہ ڈالنے والوں سے کیا شکوہ۔

حالیہ چند مہینوں میں جو کچھ بھی پاکستان کی سیاسی بساط پر ہو رہا ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں۔ یہ سب ایکشن ری پلے ہے۔ کردار بھی زیادہ تر وہی ہیں۔ نواز شریف نے تیسری بار وزارت عظمی ملنے کے بعد پھر سے ماضی کی غلطیاں دہرائیں۔ جس قوم نے انہیں ووٹ دے کر منتخب کیا تھا ان عوام کا ان پر قرض تھا کہ ان کے ووٹ کے ساتھ وہی کھیل نہ کھیلا جائے جو ماضی میں کھیلا گیا۔ پہلے ادوار کی طرح اپنے تیسرے دور حکومت میں میاں نواز شریف کی تر جیحات میں عوام کی فلاح و بہبود کہیں بھی نہیں تھی۔ ان کو پرانے قرض چکانے تھے۔ وہی پارلیمان جہاں ان کو ووٹ کا تقدس برقرار رکھنا تھا وہاں انہوں نے صرف تب تب قدم رکھا جب ان کا ذاتی مفاد تھا۔ وگرنہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وہ کوئی قانون بنانے اس پارلیمان میں کبھی نہیں گئے۔

جارج سنتیانا کا بہت مشہور قول ہے کہ
جو لوگ اپنا ماضی یاد نہیں رکھتے وہ اسی ماضی کو دھرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

میاں صاحب نے ماضی میں کی غلطیاں اور ان کی چکائی گئی قیمت یاد نہیں رکھی۔ پھر وہی ہوا جو ہم پچھلے کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ دھاندلی، پانامہ، اقامہ، مودی، اور توہین رسالت کی ترمیم۔ پتا نہیں وہ کون لوگ تھے جنہیں یقین تھا کہ میاں صاحب پھر سے عبرت کا نمونہ نہیں بنیں گے۔ جو کچھ وہ اور ان کے ساتھی کر رہے تھے اس کا انجام موجودہ حالات میں کچھ اور نہ تھا۔ اس دفعہ فلم تھوڑی سست روی کا شکار ہے مگر ایک اسے بڑھ کر ایک ٹوسٹ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کہانی بھی ایسی لکھی گئی ہے کہ رولا پایا وی نہیں جاندہ چپ رہیا وی نہیں جاندا (شور مچایا بھی نہیں جاتا چپ رہا بھی نہیں جاتا)۔

ڈان لیکس پر پرویز رشید کی قربانی بھی دی اور مجرم بھی بنے کہ قومی سلامتی کہ ساتھ کھیل کھیلا گیا۔ اقامہ پر وزارت عظمی گئی تو ” مجھے کیوں نکالا‘‘ بجائے ایک اہم سوال بننے کے ایک لطیفہ بن کر رہ گیا۔ ویسے بھی اب سو دفعہ پوچھیں یہ سوال، کسے فرق پڑتا ہے۔ نکل تو آپ گئے۔ نیب ریفرینس کھلے ، اب آپ بمع اہل و عیال پیشی پر پیشی بھگت رہے ہیں۔ اب جتنا مرضی آپ شور مچا لیں اب آپ کو حساب دینا پڑے گا۔ کیونکہ کرپشن تو بظاہر آپ نے کی ہے۔ ووٹ کا تقدس تو آپ نے خود پامال کیا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ نے مذہب کے نام پر سیاست کی اب آج وہی کارڈ آپ کے خلاف کھیلا جا رہا ہے۔

اسی پارلیمان میں جہاں آپ کو عوام کی نمائندگی کرنی تھی وہیں آپ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کروا کر خود کو پارٹی صدر بنوا لیا۔ اب صدارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو روتے کیوں ہیں۔ اپنی ذات کے لیے ایک مقدس ادارے کو استعمال کر کے آپ نے خود پالیمان کا وقار مجروح کیا۔ آج جب بوٹ والوں کا بندہ سینٹ کا چیرمین بنا ہے تو ماضی کی کوئی پرچھائی آپ کو آواز تو دیتی ہو گی۔ کبھی آپ اور وہ بھی تھے آشنا، یہی کہتی ہو گی۔
یہ جو آج بکے ہیں یا جھکے ہیں انہیں کبھی آپ نے بھی خریدا ہو گا۔

اور جب ہمارے جمہوری ڈھولا پاپا زرداری کی گود میں بیٹھ کر ٹویٹ کریں کہ”جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ تو ان عوام کہ دل پر کیا بیتتی ہے وہ ان محلوں میں بیٹھ کر آپ کبھی بھی نہیں جان سکتے۔ آپ نے اتنے سال عوام کو جمہوریت کا حسین خواب دکھانے والے پہلے بلوچستان اسمبلی پہ ڈاکا ڈالتے ہیں اور پھر اسی جمہوریت کو مزید حسین کرنے کے لیے سینٹ انتخابات کا ٹیکہ بھی لگا دیتے ہیں۔ اب عوام ورد کرتی رہے کہ شالا نظر نہ لگ جاوے۔ اب بھلے نعرے لگوائیں جئے بھٹو کے مگر یہ حقیقت سب یہ آشکار ہو چکی ہے کہ قیمت آپ کی بھی لگ سکتی ہے۔ صادق سنجرانی ایک آزاد سینیٹر کی حیثیت سے جیتے ہیں اور آپ صرف کام کا نہ کاج کا ڈپٹی چیرمین ہی منتخب کروا سکے ہیں۔ جس کرسی پر کل رضا ربانی بیٹھے تھے آج وہیں خود آپ نے سنجرانی کو بٹھا دیا۔

نیازی صاحب جنہیں ہم آج بھی اندھوں میں کانا راجا سمجھ کر قبول کیے ہوئے ہیں وہ ان سب سے بڑھ کر نکلے۔ جس بیماری کو جڑ سے اکھاڑنا تھا وہی بیماری آپ نے خود پال لی۔ اگر آپ کو بھی یہی سب کرنا تھا تو کم از کم انقلاب کا نعرہ تو نہ لگاتے۔ آپ سے توقع تھی کہ آپ فئیر پلے سے آئیں گے نہ کہ کسی بیک ڈور سے۔ اصولوں کی سیاست مشکل ہوتی ہے اگر اتنی ہمت نہیں تھی تو عوام کو یہ منجن بیچنے کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں نواز اور زرداری چل رہے ہیں وہیں آپ کی بھی جگہ بن جانی تھی۔

موجودہ سیا سی صورتحال پر حبیب جالب صاحب کے کچھ اشعار پڑھ کر ان کے الہامی شاعر ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت ماب بکتے ہیں
بےضمیروں کی راج نیتی میں،
جاہ و منصب خطاب بکتے ہیں
شیخ، واعظ، وزیر اور شاعر،
سب یہاں پر جناب بکتے ہیں
دور تھا، انقلاب آتے تھے،
آجکل انقلاب بکتے ہیں

اور جالب صاحب کے بقول کچھ بے ضمیر لوگ ہمیں جمہوریت، انقلاب، ووٹ کی عزت کا منجن بیجتے رہیں گے اور ہم ہمیشہ کی طرح کی انگھوٹے پر سیاہی لگا کر ٹھپہ لگانے چلے جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی سیاہی بعد میں بوٹ پالش کرنے کے کام آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).