جج کیوں نہیں مانتے


\"mujahid

خبر ہے کہ کوئی قابل ذکر اور قابل اعتبار ریٹائرڈ جج حکومت کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے اعلان شدہ کمیشن کی سربراہی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حکومت کے نمائیندے مسلسل ایسے ججوں سے رابطہ کررہے ہیں جن کو مجوزہ کمیشن کی نگرانی کا کام سونپا جا سکے۔

حکومت کسی ایسے ریٹائرڈ جج کو کمیشن کا سربرا ہ بنانے کی خوہشمند ہے جس کی غیر جانبداری کے بارے میں سوال نہ اٹھائے جا سکیں۔ تاہم ابھی تک اس مقصد میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ متعدد سابق جج اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں با اختیار کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن حکومت اس مطالبے پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ خبروں کے مطابق اگر کوئی مناسب ریٹائرڈ جج دستیاب نہ ہؤا تو حکومت سپریم کورٹ بار کے صدر کو یہ ذمہ داری سونپ سکتی ہے۔ تاہم اس صورت میں ملک میں ذیادہ سیاسی ہنگامہ برپا ہونے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم نے 4 اپریل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے تحقیقات کے لئے ایک خود مختار اور با اختیار عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کے سپرد کی جائے گی۔ حکومت کے لئے اب اس بات سے پیچھے ہٹنا اس معاملہ پر عملی شکست قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس دوران انٹرویوز اور قومی اسمبلی میں بیانات کے ذریعے وزرا اور سرکاری نمائیندوں نے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اس طرح پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے اہل خاندان کے معاملہ کو ذیادہ سنگین اور پر اسرار بنا دیا گیاہے۔ حالانکہ اس کی قانونی حیثیت وہی ہے جو سندھ ہائی کورٹ نے ایک آبزرویشن میں متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کاغذات میں وزیر \"jujdge-sma\"اعظم اور ان کی اہلیہ کا نام کہاں ہے۔ ان کے سارے بچے خود مختار اور بالغ ہیں۔

اس کے باوجود اپوزیشن اور خاص طور سے تحریک انصاف کی بے چینی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کے سوال پر عمران خان ابھی تک اپنا ذہن صاف کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اب وہ اس تنازعہ کو لے کر اسلام آباد کے ڈی گراؤنڈ کی بجائے رائے ونڈ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دینے اور مظاہرہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ رویہ اسی سیاسی ناپختگی سے عبارت ہے جو عمران خان کا خاصہ بن چکی ہے۔ میڈیا ور عوام یکساں طور سے اس مزاج سے آگاہ ہیں لیکن بعض پر اسرار معاملات میں سنسنی خیزی پیدا کرنے کے لئے یہ سب بھی عمران خان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ملک میں ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے گویا وزیر اعظم پر ملک کی دولت لوٹنے اور اسے خفیہ کمپنیوں میں چھپانے کا الزام ثابت ہوگیا ہو۔ اس کے علاوہ کسی شخص کے گھر کے باہر ہنگامہ آرائی کرنا، خواہ وہ ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو، کسی شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت اور غیر اخلاقی حرکت کے مترادف سمجھی جانی چاہئے۔

ان حالات میں یہ جاننا مشکل نہیں ہونا چاہئے کی کوئی بھی با عزت جج کیوں ایک ایسے کمیشن کی سربراہی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے جسے بننے سے پہلے ہی بدنیتی قرار دے کر مسترد کر دیا گیا ہو۔ اگر ایسا کمیشن قائم بھی ہو گیا تو اس کے پاس کام کرنے اور اپوزیشن کے حسب منشا الزامات کو ثابت کرنے کے لئے مناسب معلومات نہیں ہوں گی۔ ایسی صورت میں سامنے آنے والے نتیجہ پر تنقید اور حرف زنی یقینی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے تعلق رکھنے والے سابقہ ججوں میں پایا جانے والا یہ خوف ، ملک کے سیاسی مزاج کی شدت پسندی اور عمومی سماجی رویوں کی سطحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ہر عزت دار آدمی اس گندگی میں اپنا دامن آلودگی سے بچانا چاہتا ہے۔ ملک میں جمہوری ادارے استوار کرنے اور سیاسی لیڈروں پر اعتبار بحال کرنے کے لئے یہ صورت حال افسوسناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments