”نئے پاکستان“ کے نمائندے


1985 سے قبل مجھ ایسے صحافیوں نے ملک نعیم، چودھری نثار علی خان اور عبدالستار لالیکا جیسے نوجوانوں کا نام تک نہیں سنا تھا۔ پنجاب کے وزیر خزانہ نواز شریف کی شہرت بھی لاہور کے ایک سیاست دان ہونے کے بجائے ایک صنعت کار گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تھی۔انتخابات ہوجانے کے بعد وہ مگر پاکستان کے آبادی کے اعتبار کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ نامزد ہوگئے۔

اس عہدے کی سب سے زیادہ طلب بہاولپورسے تعلق رکھنے والے مخدوم زادہ حسن محمود کو تھی۔ وہ پیر پگاڑا کے برادرِ نسبتی بھی تھے۔ اقتدار کے کھیل سے بہت واقف اور جوڑ توڑکے ماہر۔ پیر صاحب نے اپنے ایک مرید محمد خان جونیجوکو وزیراعظم نامزد کروا لیا مگر اپنے برادرِ نسبتی کی مدد نہ کر پائے۔

نواز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے محروم رکھنے کے لئے اس صوبے کے روایتی جاگیردار گھرانوں کے ایک گروہ نے اٹک کے ملک اللہ یار خان کو بھی پروموٹ کرنے کی بہت کوشش کی۔ ناکام رہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ”مثبت“ سیاست کو فروغ دینے کے لئے ”سچی جمہوریت“ کی طلب گار ومددگار ضیاءانتظامیہ ”سازشی اور اناپرست جاگیرداروں“ کے بجائے صنعت کار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے لانا چاہ رہی ہے۔ایسے نوجوانوں کی کامیابی ملک کے لئے خیر کی خبر ہوگی۔

نواز شریف نے اپنے عہدے کا تقریباً ایک سال مکمل کر لیا تو پیرپگاڑا کی نگرانی میں ان کے بھانجے یوسف رضا گیلانی کے ذریعے ان کے خلاف ”بغاوت“ کی کوشش ہوئی۔ گجرات کے معروف اور سیاسی حوالوں سے بہت تگڑے جانے چودھری پرویز الٰہی نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ چند روز کی آنیوں جانیوں کے بعد جنرل ضیاءایک دن اچانک لاہور پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی بقیہ زندگی بھی نواز شریف کے نام لگانے کا اعلان کیا اور بہت رعونت کے ساتھ اعلان کیا کہ لاہور سے نمودار ہوئے اس سیاست دان کا ”کِلہ“ بہت مضبوط ہے۔ مضبوط ”کلے“ والا یہ نوجوان بعدازاں بھٹو کی بیٹی کا سب سے طاقتور حریف ثابت ہوا۔

محترمہ بے نظیر صاحبہ کی پہلی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرف کروانے کے بعد جو انتخابات ہوئے اس کی نگرانی غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم کے پاس تھی۔وہ نگران وزیر اعظم بنائے گئے تھے۔ تمام بھٹو مخالف جماعتیں IJIمیں اکٹھی ہوکر ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ہم صحافیوں کو قوی یقین تھا کہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انہیں وزیر اعظم منتخب کروایا جائے گا۔

جتوئی صاحب نواب شاہ کے ایک بہت طاقت ور جاگیر دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 1962سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے چلے آئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تو ان کے ساتھ ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں وفاق میں سب سے خوش حال اور تگڑی سمجھی وزارتِ مواصلات اور ریلوے سونپی۔

سندھ میں بھٹو کے Talented Cousinکے ہاتھوں جب معاملات بگڑے تو انہیں اس صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب کروایا گیا۔بہت ٹھنڈے مزاج کے سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے تعلقات نبھانے والے آدمی تھے۔ ان کی کاوشوں سے مہاجر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے حکیم سعید اور جمیل الدین عالی جیسے معتبر افراد نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 1977کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مصطفےٰ جتوئی اسی وجہ سے سندھی اور مہاجرلوگوں کے درمیان ”پل“ بھی قرار پائے۔

1977کے انتخابات مگر دھاندلی زدہ ٹھہراکر کالعدم ہوگئے ۔ جنرل ضیاءکا مارشل لاءلگ گیا۔ ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگوا دی۔ ان کی پھانسی کے بعد معاملات نارمل کرنے کے لئے جتوئی صاحب کو وزیراعظم بنانے کی کوشش ہوئی مگر امریکہ میں ریگن آ گیا۔ اسے پاکستان میں جمہوریت سے زیادہ افغانستان کو ”جہاد“ کے ذریعے سوویت یونین سے آزاد کروانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ اس جہاد میں یکسوئی کو برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان میں پارلیمانی سیاست کو بحال کرنے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔ کڑے مارشل لاءنے اندرون ملک سیاست دانوں کو غیرمتعلق بنادیا۔ بالآخر 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے عوام کے منتخب افراد کو ”اقتدار میں شراکت“ کا منصوبہ سامنے آیا۔

جتوئی صاحب کی زیرقیادت روایتی سیاستدانوں کے بنائے MRDنامی اتحاد نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ نواز شریف، ملک نعیم،چودھری نثار علی خان اور عبدالستار لالیکا جیسے کئی ”نئے چہرے“ اس بائیکاٹ کی بدولت ہی بعدازاں ہماری سیاست کے اہم ترین کردار ثابت ہوئے۔

ہماری ریاست کے کئی طاقتور لوگ، جن میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بھی شامل تھے۔ بہت خلوص سے یہ چاہتے تھے کہ غلام مصطفےٰ جتوئی جیسے زیرک وبردبار شخص کو 1990کے انتخابات کے بعد وزیراعظم نامزد کیا جائے۔ نواز شریف نے اپنے Young Turks کی قوت سے اس منصوبے کو ناکام بنادیا۔

پاکستان کے سیاسی کھیل کو 1985سے بہت قریب سے دیکھتے ہوئے کئی برسوں تک رپورٹ کرنے کی وجہ سے جمع ہوئے خیالات مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ ہم 1985کی دہائی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ہماری سیاست کو ایک بار پھر ”نئے چہروں“ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ حسنِ اتفاق ہے کہ ایسے چہرے نمودار ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ فی الوقت نمودار ہوئے چہروں کا تعلق رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے ہے۔ ساحل اور معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ جہاں گوادر بھی ہے۔ جی وہاں وہی بندرگاہ جسے ایک سڑک کے ذریعے چین کے کاشغر کے ساتھ ملانا ہے۔

Strategic حوالوں سے بلوچستان اس وقت پاکستان کا اہم ترین صوبہ ہے۔ ہماری ریاست کے دائمی ادارے اسے ”چورلٹیرے“ اور ”سازشی“ شمار ہوتے روایتی سیاستدانوں کے حوالے کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ وہیں سے لہذا نوجوان سیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ نمودار ہوگئی ہے۔

قدوس بزنجو ان میں سے ایک ہیں۔ فیض صاحب کو انتظار ہوتا تھا اس درد کا جو ”آئے گا دبے پاﺅں لئے سرخ چراغ“ قدوس بزنجو بھی دبے پاﺅں آئے اور اپنے صوبے کے ایک اہم ترین سردار ثنااللہ زہری سے وزارتِ اعلیٰ چھین لی۔ اسی صوبے کے ایک اور ہونہار بروا، سرفراز بگتی،، نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان دونوں کی اہمیت کو ”ایک زرداری….“ نے بروقت بھانپ لیا۔ انہیں ”دُعائیں“ دینے کا فیصلہ کیا اور بالآخر ان تینوں کے گٹھ جوڑنے ہمیں مارچ 2018 میں ایک Hung سینٹ سے نوازا۔ کوئی ایک نام نہاد مین سٹریم سیاسی جماعت اس قابل نہ رہی کہ ایوان بالا کا اپنے تئیں چیئرمین منتخب کروا سکے۔

قدوس بزنجو اپنے 8 سینیٹرز لے کر اسلام آباد آگئے۔ بنی گالہ حاضر ہوئے۔ ”نئے چہروں“کے شدت سے متلاشی عمران خان صاحب ان کی آمد سے اتنے خوش ہوئے کہ تحریک انصاف کے 13سینیٹرز”بلوچستان کے احساس محرومی“ کا تدارک کرنے کے نام پر قدوس بزنجو کے حوالے کر دئیے۔ ان سب نے عمران خان صاحب کی جانب سے ”پاکستان کی سب سے بڑی بیماری“ ٹھہرائے آصف علی زرداری کے نامزد کردہ سلیم مانڈوی والا کو بھی سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کروا دیا۔

ساحل ومعدنی وسائل سے مالامال بلوچستان نے یکایک ایک نہیں تین نئے چہرے قدوس بزنجو، سرفراز بگتی اور صادق سنجرانی۔ قومی اُفق پر نمودار کروا دئیے ہیں۔ ان پر نگاہ رکھیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ”نئے پاکستان“ کے نمائندے ایسے ہی کئی چہرے ہوں گے۔ابھی تو پارٹی شرع ہوئی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).