ماوراے آئین عدالتی نظام اور ریاست کی مجرمانہ خاموشی!


\"rana

 ابھی پانامہ لیکس کی گرد فضا میں اڑ ہی رہی تھی کہ ڈان نے ایک ایسی خبر شائع کردی جو کسی دھماکے سے کم نہیں تھی خبر کے مطابق جماعت الدعوۃ والوں نے ایک متوازی نظام عدل قائم کررکھا ہے جہاں شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں. سالہاسال سے یہ نظام کام کررہا ہے اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں فیصلے کرچکا ہے، پاکستان کے لوگوں کو اس کی سن گن تو پہلے ہی سے تھی لیکن کسی کو کچھ کہنے کی ہمّت نہیں تھی، سب سے پہلے تو ہم میڈیا کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس خبر کو طشت از بام کیا.

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جہاں حکومت پاکستان کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے ایسا نظام عدل صدیوں سے کام کررہا ہے وہاں کے معاشرتی اور سماجی ڈھانچے میں اسکی گنجایش بہرحال موجود ہے گو کہ اس نظام عدل سے اختلاف کرنے والوں کی معقول تعداد اس ملک کی شہری ہے اور جب بھی کبھی کسی کے حقوق پامال ہوں اس پر صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اندر لاہور، گوجرانوالہ سیالکوٹ اور دیگر بڑے شہروں میں ایسا متوازی نظام عدل رائج کرنا حکومت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں، یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے پی کے اور بلوچستان اور سندھ میں تو حکومت کی عملداری قائم کرنے اور باغیوں کو دستور پاکستان کے تابع کرنے کیلیے دن اور رات ایک کیے ہوئے ہیں کیسے ہر روز قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جارہا ہے. ہم وطن پر نچھاور ہونے والے سب شہیدوں اور غازیوں کو صمیم قلب سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ساتھ ہی اس گستاخی کی اجازت چاھتے ہیں کہ جماعت الدعوۃ کو آئین پامال کرنے کی اجازت کس نے دی رکھی ہے.

جنرل ضیاالحق نے جو جہادی جتھے اپنے دور میں تیار کیے تھے اس گند کو صاف کرنا کس قدر مشکل ہے اور یہ بات افواج پاکستان کے علاوہ کون بہتر جانتا ہے پچاس ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے جو مالی نقصانات ہوے ان کے اعداد و شمار کھربوں میں ہوں گے، کیا ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ دینا شہیدوں کے خون سے غدّاری نہیں ہے، کوئی بھی معقول انسان حکومت کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ یہ سب کچھ اسکی لاعلمی میں ہوتا رہا ہے خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ان مذہبی گروہوں کو کسی قانون کی حدود میں لے کر آئیں۔ کیا ریاست اس قدر کمزور ہے کہ ملک ان مذہبی مافیا کے حوالے کر دیا جائے؟ ریاست کو اس کی وضاحت بھی کرنی چاہیے کہ ضرب عضب کس کے خلاف ہو رہا ہے کیونکہ قانون شکنی میں جماعت الدعوۃ اور طالبان میں کوئی فرق نہیں۔ ایک غیر ریاستی تنظیم کو شہریوں پر قوت نافذہ کیسے دی جا سکتی ہے؟ اور ایسے کسی اختیار کو بھتہ خوری، تاوان اور قبضہ گیری کا وسیلہ بننے سے کیسے روکا جا سکے؟

سوال یہ ہے کہ کیا 1973 کا دستور اب بھی ملک کے اعلیٰ ترین قانون کی صورت میں نافذ العمل ہے. جماعت الدعوۃ کے پاکستان کے مختلف شہروں میں انتہائی قلعہ نما مراکز ہیں، ریاست کے اندر ریاست تشکیل دے رکھی ہے، اگر ان عناصر کا کردار پاکستان کی سالمیت کے لیے ضروری ہے تو پارلیمنٹ میں قانون پاس کروائیں تاکہ لوگ اس مذہبی مافیا کو دل سے قبول کرلیں اور ان کو شرعی بھتہ کی وصولی کا قانونی جواز بھی مل جائے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو اب پس و پیش سے نکلنا ہوگا ایسی قوتوں سے صرف نظر کرنا اس ملک کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ زمینی حقایق اب بدل چکے ہیں۔ پاکستان اس جنگ میں بہت کچھ کھو چکا ہے، ہمیں ہر حال میں پاکستان کو ایک مضبوط خوشحال اور تعلیم کی دولت سے مالامال ملک بنانا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دستور کی بالادستی ہو، سب کو آئین کے تحت انصاف فراہم کرنے والوں کے توسط سے انصاف ملے، جمہوری روایات کی سربلندی ہو، کسی کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ دھونس اور دھدلی کے ساتھ کسی پر اپنی مرضی مسلّط کر سکے، کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایسا پاکستان دے سکیں گے؟

رانا امتیاز احمد خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا امتیاز احمد خان

رانا امتیاز احمد خاں جاپان کے ایک کاروباری ادارے کے متحدہ عرب امارات میں سربراہ ہیں۔ 1985 سے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے جاپان اور کیلے فورنیا میں مقیم رہے ہیں۔ تاہم بحر پیمائی۔ صحرا نوردی اور کوچہ گردی کی ہنگامہ خیز مصروفیات کے باوجود انہوں نے اردو ادب، شاعری اور موسیقی کے ساتھ تعلق برقرار رکھا ہے۔ انہیں معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور تازہ ترین حالات پر قلم اٹھانا مرغوب ہے

rana-imtiaz-khan has 22 posts and counting.See all posts by rana-imtiaz-khan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments